قصہ دوبہنوں کا
اب تو ایک عرصہ ہوگیا نوائے وقت میں لکھتے ہوئے۔85ءسے فلپائن کی مسلم اقلیت اور ”مورو قبائل“ کے بارے میں لکھا تھا۔ پھر زیادہ تر کشمیر اور فلسطین کے علاوہ دنیا بھرمیں پھیلی ہوئی مسلم اقلتیں میرا موضوع رہیں۔ جب یوگوسلاویہ اپنے پورے عروج پر تھا تو ”بوسنیاہرزی گووینیا“ کے بارے میں مجھے کچھ اطلاعات ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے سے ملیں۔اتفاق سے انہی دنوں میرا اسلام آباد میں یوگوسلاویہ کے سفارت خانے جانا ہوا۔ میں ان کی زبان تو نہیں سمجھتا تھا مگر جس انداز سے عملے کے ارکان اور سفارت کار ایک دوسرے کو مخاطب کررہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان میں قومی یکجہتی عنقا ہوچکی ہے۔ ایک سفارت کار مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ جاکر دیواروں پر کلمہ طیبہ اور خانہ کعبہ و مسجد نبوی کی تصاویر دیکھیں تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب اور ان کے اہلِ خانہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے مجھے بتانا شروع کیا کہ یوگوسلاویہ اب ٹوٹنے والا ہے۔ وہاں مسلمانوں کو اب اسلامی نام رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ جوعبادت وغیرہ کے لئے جمعہ کے روز اکٹھے ہوتے ہیں انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور اگلے جمعہ کے روز تک جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ مزید برآں ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی یہ آگ بھڑک رہی ہے اس لئے اب یوگوسلاویہ کی وحدت ختم ہوجائے گی۔
میں نے اسلام آباد سے واپسی پر نوائے وقت میں جناب مجید نظامی کی زیر ادارت ایک کالم ”کیا یوگوسلاویہ ٹوٹ جائے گا؟“ لکھا تو اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے بائیں بازو والوں نے میراخوب مذاق اڑایا۔ تاہم وقت گذرتا رہا اور یوگوسلاویہ اپنی اندرونی سیاست کے زیر اثر اپنی اصل شکل یعنی عدم استحکام کی طرف بڑھتا رہا۔ بوسنیا ہرزی گووینیا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ امریکہ ومغرب کے علاوہ پاکستانی امن فوج نے اپنا کردار ادا کیا اور پھر ایک دن وہ بھی آگیا جب ایک یوگوسلاویہ مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر ایک سے زائد ملکوں میں تقسیم ہوگیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اورمسائل ابھرتے رہے اور لوگ باگ یوگوسلاویہ اور بوسنیا کو بھولتے چلے گئے۔ میں بھی بھول گیا بلکہ سالہا سال گذر گئے۔ جب یہ موضوع ذہن سے ہی نکل گیا۔ اس کے لگ بھگ پندرہ سال بعد امریکہ جانا ہوا۔ جانا تو اکثر رہتا مگر اب کی بارکچھ اور ہی دیکھنے اور سننے کو ملا۔ یہ کوئی پانچ سال قبل کی بات ہوگی۔ نیویارک کے علاقے بروکلین میں ایک بہت خوبصورت رہائشی علاقہ ہے ”اوشن پارک وے۔“ ایک طرف سے اس کے آغاز پر ”چرچ ایونیو“ کے علاقے کا کونا ہے۔ جہاں سے ایک طرف جاتے ہوئے ایک چھوٹا سامغربی طرز کا ریسٹورنٹ ہے۔ جسے سبز آنکھوں والی دو بہت حسین وجمیل لڑکیاں چلاتی ہیں۔ دیگر کوئی ملازم نہیں ان کے ریسٹورنٹ پر۔ سیل زیادہ ہونے کے سبب انہیں دوڑ دوڑ کرکام کرنا پڑتا ہے اور کھانا بھی خود تیار کرنا پڑتا ہے۔ تہہ خانے سے بھاری بھرکم بوتلوں کے باکس بھی خود اٹھا کر لاتی ہیں۔ ایک لمحہ کوبھی میں نے انہیں فارغ نہیں دیکھا۔ اگر فراغت کوکوئی وقت نکلا تو صفائی میں مصروف ہوجاتیں۔ صبح ناشتے کے وقت آتیں اور رات 11بجے ڈنر کے بعدچلی جاتیں۔ سینکڑوں ہزاروں بار یہاں سے گذران ہوا، ان کا کھانا بھی بہت دلکش نظر آتا اورخوشبو بھی دل ودماغ کو معطر کرتی مگر جی میں یہی بات سمائی رہی کہ گوشت حلال نہیں ہوگا کیونکہ دونوں ”میمیں“ ہیں۔
پھر گذشتہ سال ایسا ہوا کہ اچانک اور بھر پور بارش کے باعث ان کے چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں پناہ لینا پڑگئی۔ اجازت طلب کی تو مسکرا کر انہوں نے خوش آمدید کہا۔ بیٹھے بیٹھے بورہونے کی بجائے سوچا کہ ان سے کچھ گفتگو کی جائے تاکہ وقت گذر سکے۔ میں نے کہا کہ آپ کے کھانے کی خوشبو اتنی اچھی ہے تو یقینا ذائقہ بھی اچھا ہوگا، کئی بارجی میں آیا کہ کبھی آپ کے ریسٹورنٹ سے بھی کچھ کھایا جائے مگر ہم مسلمانوں کے لئے بس ذرا ایک مسئلہ حلال گوشت کاہوتا ہے۔ ہم بھی توحلال گوشت استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ اور ہم مسلمان ہیں دوسری نے الحمدللہ پر زوردیتے ہوئے کہا۔ میں حیرانی کے ایک گہرے سمندر میں گرگیا ان کی بات سن کر۔ مگر یہ مغربی طرز کا لباس؟
ہاں مجھے یاد آگیا کہ امریکہ میں روس اورمشرقی یورپ سے آنے والے مسلمانوں کے لئے ایسا لباس کوئی مسئلہ نہیں۔ اورنہ ہی اس مسئلے پر ان کے کان کھانے چاہئیں اورنہ بحث کرنی چاہئے۔ باہر گھٹا کچھ ایسے جھوم کے اٹھی تھی کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اس لئے کافی وقت پڑاتھا ان سے باتیں کرنے کا۔ معلوم ہواکہ دونوں بہنیں ہیں۔ ماں باپ بوسنیا میں شہید ہوگئے تھے۔ امریکہ کی مدد سے دونوں کو اس ملک کی شہریت ملنے والی ہے۔ دونوں شادی نہیں کرنا چاہتیں، بتانے لگیں کہ زندگی میں پہلی بارانہوں نے قرآن پاک یہاں امریکہ میں آکر دیکھا۔ ہمیں کلمہ پڑھنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ یہیں نیویارک میں ایک دکان سے قاعدہ خریدا اور لاطینی حروف تہجی کی مدد سے اسے ازبر کیا۔ شائد یہ دونوں بہنیں آمنہ اور فاطمہ کچھ دیر اور بھی بولتیں مگر ان کے پاس اسلام کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ بس ایک احساس تفاخر تھا دونوں بہنوں کے پاس کہ وہ مسلمان ہیں۔گذشتہ دنوں نیویارک سے ایک دوست نے بتایا کہ وہ شہر چھوڑ کر شکاگو جابسی ہیں۔ جہاں مسلمانوں کو خاص طور پر بہت آزادیاں حاصل ہیں۔ بہرحال میری یہ دونوں بہنیں جہاں رہیں شاد اورآباد رہیں۔