سکون کی تلاش
زندگی انسان سے امتحان لیتی ہے۔ جو انسان اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے گھرسے نکلتا ہے طبقاتی تقسیم، فرقے بازیاں اور غیرمنصفانہ رویے اسے کسی گندے نالے کے کونے میں نشہ کرنے والے مایوس انسان میں بدل دیتے ہیں۔ وہ کوڑے دانوں میں پھینکے جانے والے باسی کھانوں کی طرح اس دنیا کے قابل تو کیا اپنے قابل بھی نہیں رہتا۔ وہ تاش کے پتوں پہ جواری بن کے بادشاہوں، ملکاﺅں کی بازی تو جیت لیتا ہے مگر اپنی قابلیت جوئے میں ہار جاتا ہے۔ ایک نشے کی پڑیا دو ہیروئن کے سگریٹوں اور دیسی شراب کی بوتل کے لیے وہ اپنی عزت گروی رکھنے میں شرم محسوس نہیں کرتا اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتا ہے۔کردار انسان کی پیدائش کے ساتھ جنم نہیں لیتا بلکہ ایک معصوم مسکراہٹ، زمانے کے دل چیرنے والے قہقہوں کی بدولت اپنی معصومیت کھو دیتی ہے۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو مگر ایک انسان ناکام و نامراد دنیا سے چلا جاتا ہے۔
راقمہ نے بہت سے ایسے خاندانوں میں انتہائی ذہین و فطین لوگوں کو ذہنی مریض بنتے دیکھا ہے۔ تحقیق کے بعد معاملات سامنے آتے رہے ان میں والدین کی ناچاقیاں، ان میں صبرو برداشت کی کمی، باہر کے لوگوں اور دیگر رشتہ داروں کی بلاوجہ مداخلت۔ یہ کہنے کو یا سمجھنے کو شاید لوگوں کو معمولی بات لگے لیکن یقین جانیں یہ باتیں معمولی نہیں ہیں۔ یہ ایک انسان کی زندگی ہی نہیں مکمل خاندان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ایسا کرنے والے تماشائیوں میں سب سے آگے تالیاں بجاتے ہیں مگر زبان سے اظہار ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں۔ انسان معاشرتی جانور ہے اسے ہر حال میں معاشرے سے رابطہ اور میل جول بڑھانا ہوتا ہے لیکن اس کے لیے جب تک وہ ایک خاندان سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھ سکے، اپنے بچوں، بیوی اور والدین کے علاوہ دیگر رشتہ کی اہمیت اور خاص مقام کو نہ سمجھ سکے وہ ایک معاشرے کا مفید فرد کیسے بن سکتا ہے۔
اسی لیے تو ہر رشتے کا مقام اسلام نے بھی کھول کھول کے بتا دیا ہے تاکہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی بنا پر مسائل پیدا نہ ہوں ۔قلم دوات اور کاغذ ادیب کے بہترین ہتھیار، اوزار اور دل سے جڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح خاندان کا ہر فرد اس خاندان کے ذمہ دار کا قلم دوات اور کاغذہوتا ہے۔ وہ اپنی جذباتی وابستگی، محبت کی گہرائی اپنے کردار کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت ان کی زندگیاں کامیاب بناکر دیتا ہے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ اپنے فرائض کی مکمل ادائیگی تھوڑے جلال اور زیادہ جمال کے ساتھ کرنے والے خاندانوں میں کوئی فرد معاشرے کا ناکارہ حصہ بنتا ہو۔ انھی خاندانوں سے بننے والے افراد سیاست، بزنس، تعلیم اور مختلف شعبوں میں جاتے ہیں۔ اچھی تربیت ان کو وطن کی خدمت کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے معاشرتی طور پر بہت مضبوط اور طاقتور انسان کیسے بھی حالات سے گزر رہے ہوںوہ اپنے کسی ساتھی کو کبھی نقصان نہیں پہنچاتے۔ ایسے افراد وطن کی طاقت بنتے ہیں نہ ان کے ہاتھ کشکول ہوتا ہے نہ ان کی زبان پہ شکوہ نہ ان کی نظر میں لالچ نہ سینے میں کینہ ،ایسے افراد ہمارے وطن کی ضرورت ہیں۔ ان کو بنانے کے لیے معاشرہ کی مدد نہیں ایک خاندانی نظام کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ایک انسان کو مکمل اور بھرپور کردار کا حامل کر کے خاندان ہی معاشرے کے حوالے کرتا ہے۔ اگر وہ یہ ذمہ داری ایک فرد کے بچپن سے نہیں بھاتا تو پھر وہ معاشرہ گلی کوچے میں کھڑے اپنی زندگی کو ضائع کرنے والے جوانوں، گلیوں میں بیٹھ کر تاش کھیلتے یا چھتوں پہ پتنگ بازیوں کے پیچے لڑانے والوں اور اپنی صلاحیتوں کو شعبدہ بازیوں کی نذر کرنے کے لیے ان کو گلیوں کا پتھر بنا دیتا ہے۔
تو کیوں ہم اتنے قیمتی خزانوں کو بے سبب جلا کے راکھ کر دیں۔ ہمیں ان معصوم بچوں سے اپنی زندگی کو خوبصورت بنانا ہی ہے کیوں نہ ان کے معصومیت کے دور میں ہی ان کی زندگیوں کو محبت اعتماد خلوص اور دوستی کے ساتھ پروان چڑھانے کا فیصلہ کرلیں۔ مسکرانا ہم نے بھی ہے اور جینا ہم نے بھی ہے مگر اپنی اولادوں کے ساتھ اور پھر ایک وقت کے بعد ان پر وطن کا حق بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لیے اگر ہم ان کی تربیت میں اپنا ایمانداری کا خون پسینہ شامل کر دیں گے تو ہی وہ وطن کی خاطر کرپٹ سیاستدان نہیں بنیں گے۔ کاروبار میں ریاکاری نہیں کریں گے، تعلیم کو علم کے معیار پر لاکر اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے اور شعور و آگہی کی جس طرح خود منازل طے کی ہوں گی ویسے ہی امانت اور ایمانداری کے ساتھ ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ گہری اندھیری گھاٹیوں یا یخ بستہ بلند و بالا چوٹیوں پر وطن عزیز کی خدمت وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے والدین اور اساتذہ نے ان کی تربیت پہ جان ماری ہو ورنہ ہمارے معاشرے کے بے شمار جوان بچے اور بچیاں نہ صرف اپنی زندگیاں برباد کرتے نظر آ رہے ہیں بلکہ خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔اس نوجوان نسل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، انھیں جب کبھی ہماری محبت دوستی اور اعتماد ملے گا یہ کردار کی گری ہوئی سطح سے بھی باہر نکل کر اٹھ کھڑے ہوں گے، یہ ثابت کروانے کے لیے کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ ہمارا بڑھا ہوا دوستی کاہاتھ اپنے ناکام بچوں کی طرف وہ مضبوط سہارا بن سکتا ہے کہ وہ بچہ وطن کا چمکتا ہوا ستارہ بن سکتا ہے۔
یہاں پر ذرا ہمت دکھانی ہے والدین اور اساتذہ کو، ہماری اولادوں میں کوئی کھوٹا سکہ نہیں ہو سکتا جس کے کان میں اذان دی جائے وہ کھوٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ بس ہمیں ان کو ہیرا بنا کے، معاشرے کو سنبھالنے، وطن کی عزت بڑھانے اور مذہب کی خدمت کرنے کے لیے آگے کرنا ہے۔ نوجوان نسل میں کوئی مایوس نسل نہیں ہے۔ بس ان کی تربیت گاہوں کی ذمہ دار شخصیات کو اپنی بصیرت اورسیرت کے آئینے میں ان کو ڈھالنا ہے ورنہ سیرت کا شیشہ بھی ٹوٹ جائے گا، بصارت بھی کھو دیں گے اور سفید لاٹھی ان کے ہاتھوں میں تھما کر ہم اپنی ضعیفی کی بنا پر انھیں سڑک بھی پار نہیں کر ا سکیں گے پھر حادثات تو ہوں گے، قتل و غارت کا بازار تو گرم ہوگا، خوف و ہراس کی فضا تو پھیلے گی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اس لیے اس کو لمحہ فکریہ سمجھ کر لمحہ موجود سے اس کی منصوبہ سازی کرنی شروع کر دیں۔