• news

بابر اعظم اینڈ کمپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو وہ کیسے سیکھیں گے؟

ستارہ انجم(لندن)
اسکے علاوہ میرے خیال میں پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں بالخصوص کپتان کو میڈیا ٹریننگ لینی چاہیے۔ بابر کو انگلش چھوڑیں اردو بھی ٹھیک سے بولنی نہیں آتی۔ ہر پریس کانفرنس، ہر پوسٹ میچ میں ایک ہی طرح کے گھسے پٹے بے ربط الفاظ اور جملے ہوتے ہیں جنہیں سن کر ہمیں ایمبیریسمینٹ ہوتی ہے۔ ہم بیرون ملک مقیم برٹش پاکستانیوں کو بڑی خفگی ا ٹھانا پڑتی ہے جب جب پاکستان ٹیم برا کھیلتی ہے انکا مذاق اڑتا ہے۔ ہمارے دوستوں میں انڈینز بھی ہیں اور گورے بھی۔ بابر اور رضوان دونوں کی میڈیا ٹریننگ ہونی چاہئے۔ یہ دونوں اس اعتبار سے بالکل اچھے نہیں ہیں۔ ویسے تو شاداب اور امام بھی بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں۔ ایک بابر کا وزیر ہے تو دوسرے میں پروٹین کی کمی ہے اس لئے چھکے نہیں لگتے۔ 
جو شخص کیپٹن میٹیریل ہے وہ ہے عماد وسیم اور شان مسعود۔ اسکے علاوہ سرفراز احمد۔ پہلے کھلاڑیوں کی کلاس ہوتی تھی جیسے وسیم، عمران، وقار، سلمان، شعیب اختر ، مصباح الحق، سعید انور، جاوید میانداد وغیرہ۔ موجودہ کھلاڑیوں میں تعلیم کی کمی ہونے کے ساتھ ساتھ گرومنگ کی بھی بہت کمی ہے۔ یہ کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں تو انہیں کم سے کم ڈھنگ سے بولنا آنا چاہئے۔ افغانستان کا کپتان بابر اعظم سے اچھی انگلش بول لیتا ہے۔ اصل میں پاکستان میں کپتانی کا معیار صرف اچھا کھلاڑی ہونا ہی ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ عالمی کپ میں اب تک پاکستان ٹیم کی خراب کارکردگی اور نتائج میں بہت بڑا حصہ کپتان بابر اعظم کے غلط فیصلوں کا ہے۔ ان کے فیصلوں کی وجہ سے متعدد مرتبہ ٹیم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر ٹیموں کے کپتانوں کے فیصلوں سے ان کہ ٹیمیں مشکلات سے نکلتی اور شکست سے فتح کا سفر شروع کرتی ہیں جب کہ ہمارا کپتان بنا بنایا میچ اپنے خراب فیصلوں سے بگاڑ دیتا ہے اور مخالف کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ لندن میں ہم جیسے پاکستانیوں کو اپنی ٹیم کی ایسی خراب کارکردگی سے بہت تکلیف اور شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن