• news

سیاسی گنجائش کی ضرورت 

ایک دوسرے کاادب و احترام ایک مثبت احساس ہے ، یہ احساس انسانوں میں یک طرفہ بھی ہوتا ہے اور دو طرفہ بھی ، ایک سے زائد افراد میں پایا جانے والا یہ احساس باہمی احترام کے زمرے میں آتا ہے ، باہمی ادب و احترام معاشرے کو خوبصورت بنانے میں اہمیت کی دلیل بن جاتا ہے، جس معاشرے میں باہمی احترام کا احساس نہ ہو تو وہ معاشرے سکڑ کر گھٹن پیدا کر دیتا ہے جہاں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، اورادب و احترام کی جگہ باقی نہیں رہتی ، معاشرے کے حسن کی تشکیل میںبنیادی طور پر جن اصولوںپر عمل کر کے اخلاقی ، سماجی و مذہبی ، ، علمی وفکری اور سیاسی گھٹن کو ختم کیا جا سکتا ہے وہ جذبہ درگزر اور ایک دوسرے کے لئے مقام پیدا کرنے میں مضمر ہے۔ 
دیر آئے درست آئے کی مصداق مولانا فضل الرحمن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ ” تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کریں ، سیاسی گنجائش لازمی ہے “ عہدِ حاضر میں سیاست کے گھٹتے ہوئے مقام میں جگہ بنانے کی ضرورت کا خیال آجانا آکسیجن کی کمی کی نشان دہی ہے ، کاش کہ اس مشورے پر 70 کی دہائی میں عمل کر لیا جاتا تو جمہوریت بھی مضبوط رہتی اور ایک سیاسی لیڈر کو پھانسی بھی نہ ہوتی، دوسری بات جو مولانا نے کہی کہ” سیاست داں اور سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کریں “ اعلیٰ حضرت سیاسی جماعتوں پر ہی کیا منحصر ہے، بالغ نظری کا مظاہرہ توزندگی کے ہر مقام پر کیا جانا چاہئے ، ملکی معاملات ہوں یا گھریلو معاملات ، معاشرتی اور علمی سطح کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان بالغ نظری کا مظاہرہ کرے ، نا عاقبت اندیشی اورنا بالغ نظری پرمشتمل سوچ کا حامل فرد معاشرے کا ایک بے سود فرد شمار ہوگا ، تیسری اور اہم قومی سطح کی فکر انگیز بات جسے مولانا نے کئی پانیوں کے سر سے گزر جانے کے بعد کیا وہ یہ کہ ”سیاسی منشور سیاسی موقف دینا سب کا حق ہے مگر اولین ترجیح پارلیمنٹ کی بالادستی ہے“۔
سو فیصد درست فرمایاسیاسی موقف اور سیاسی نظریہ سیاست کے اہم ستون ہیں ،سیاسی نظریہ ، اخلاقی نظریات ، اصولوں ، عقائد یا سماجی تحریک سماجی علوم کی علامتوں کا ایک خاص مجموعہ ہے ،جس سے سیاسی بالغ نظری سے طے کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں کس طرح کام کرنا چاہئے،جس سے ایک مخصوص نظم و ضبط کے ساتھ ایک سیاسی اور ثقافتی خاکہ عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ، کچھ سیاسی جماعتیں ایک مخصوص نظریے کو اپناتے ہوئے سختی سے اس پر عمل پیراءرہتی ہیں ، جب کہ کچھ نظریہ کو دل سے قبول کئے بغیر متعلقہ نظریات کی طرح طرح کی صفوں میں سرگرداں رہتے ہیں کسی نظریے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو جزوی طور پر اپنا کر عوامی توجہ کے خواہاں رہتے ہیں ، اوراپنے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہیں، ایسی صورتحال کے پیش نظر کسی جماعت کی طرف سے ِ سیاسی موقف کوپرکھنا سماجی ذمہ داری ہے ، لیکن ہمارے ملک کی سیاست شخص پرستی کے نظریہ پر قائم ہے ، نظریاتی سیاست کی جگہ حوس اقتدار اور مال و زر کی سیاست کا دور دورا ہے۔ 
جہاں تک بات ہے اولین ترجیح پارلیمنٹ کی بالادستی کی تو پارلیمنٹرین نے ہی پارلیمنٹ کی بالادستی کو بے توقیر کیا، آئینِ پا کستان 14 اگست ، 1973ءمیں نافذالعمل ہوا ، اور اس میں پہلی ترمیم 1974ء میںمشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لئے کی گئی ، اس کے کچھ ماہ بعد ہی دوسری ترمیم میں قادیا نیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ، فروری 1975 ءمیں تیسری ترمیم کے ذریعے صدر کی طرف سے ہنگامی حالت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کر دی گئی ، چوتھی ترمیم میں عدالتوں کے اختیارات کو کم کیا گیا اور قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھا دی گئی جس کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں یہ تعداد تین سے بڑھ کر پانچ ہو گئی۔
 قومی اسمبلی کا آخری اجلاس جو کہ عام انتخابات سے قبل ہوا تھا ، آئین پاکستان میں چھٹی ترمیم کی گئی جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو اس طرح بڑھایا گیا کہ اگر کسی چیف جسٹس کے عہدے کی مقررہ معیاد پوری پوری نہیں ہوئی اور وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہچ جاتے ہیں تو اس وقت تک بطور چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے جب تک ان کے عہدے کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی، ان ترامیم کے بعد جوآئین پاکستان میںترامیم ہوئیں وہ پارلیمنٹ کی بالادستی میں بے توقیری کا سبب بنی ، ساتویں ترمیم 1977 ءمیں منظور کی گئی جس کی رو سے وزیرِ اعظم صدر پاکستان کی اجازت سے ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکیں۔
پانچ جولائی 1977 ءسے پارلیمنٹ میں آئین سے کھلواڑ شروع ہوا اور یہ کھلواڑ سیاسی اور پالیمنٹرین نے ہی کیا ، جب کہ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو معطل کیا اور مارچ 1985 ءمیں حکم برائے بحالی آئین ( آر سی او ) آئین کے ذریعے ترامیم کر کے آئین بحال کر دیا ، آٹھویں ترمیم آر سی او کے ذریعے غیر آئینی طریقہ سے جو ترامیم آئین پاکستان میں شامل کی گئیں ان میں صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیا گیا جس کے باعث چار حکومتیں اپنی آئینی مدت سے پہلے تحلیل کر دی گئیں ، عسکری سربراہوں کی تقرری کے اختیارات وزیر اعظم سے صدر کو منتقل کر دیئے گئے ،رکن پارلیمنٹ بننے کے لئے اہلیت کی نئی شرائط ، قومی سلامتی کونسل کا قیام اور دیگر ترامیم شامل تھیں۔
1985ءمیں وجود میں آنے والی پارلیمان نے شاہ کی خوشنودی میں آٹھویں ترمیم میں معمولی تبدیلی کے بعد اسے آئین کا حصہ بنا دیا ، جس کے تحت جنرل ضیاء الحق کا نام بطور صدر آئین میں درج کر دیا گیا ، نواز شریف دور میں تیریویں اور چودھویں پندرھویں اور سولھویں ترمیم کیں ، جنرل مشرف کے فوجی ایکشن کے بعد آئین کو معطل کیا گیا اور 2002ء میں بحال کیا تو اس میں ایل او ایف اور لیگل فریم ورک کے ذریعے ترامیم ہوئیں ، اسی سال اسمبلی نے متحدہ مجلسِ عمل کی شراکت داری سے ایل ایف او کی ترامیم کو آئین کی سترھویں ترمیم کا حصہ بنایا۔ پارلیمان کی بالادستی اور سیاست میں گنجائش بالغ النظری کی متقاضی ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن