• news

میاں صاحب کی واپسی اور قومی انتخابات

وہ آگیا شاہکار جس کا انتظار تھاکیو نکہ مقدر کی دیوی میاں صاحب پر اس قدر مہر بان ہے کہ ان کو سیاسی شاہکارکہنا بے جا نہ ہو گا ایک سیا سی رہنما جس کو تین تین با رحکومت ملی اور اور چھنی ہو اور سازش اور پو لیٹیکل انجینئر نگ کے تحت مخا لفین نے اپنی طر ف سے قومی سیا سی دھارے میں انکا ہمیشہ کے لیے نا طقہ بند کر دیا ہو لیکن پھر بھی دہر ائے جا نے والے گھناونے کھیل کے باوجود عوامی لیڈر نو از شریف کی نہ ہی عوا م میں پذیر ائی کم ہوئی ہو اور نہ ہی پا کستانی سیاسی ٹرین میاں صاحب کے کلیدی کر دار کے بغیر ٹریک پر گامزن سفر ہو سکتی ہوتو مطلب میاں صاحب ایسے سیاسی و جمہوری شاہکار ہیں جن کو نہ صرف محض انکا مقدر بلکہ سیاسی متا نت و پختگی کی بنا پر مسند اقتدار با ر با ر اپنی طرف کھینچتی ہے اب جب کہ چو تھی بار ان کی حکومت اور وزیر اعظم بننے کے امکانات قوی ہو چکے ہیں تو رب کا ئنات کا میاں صاحب پر خصوصی فضل و کرم ہے جہاں اس دنیا میں ایک بار حکمران بننا محال ہو تا ہے وہاں ایک شخص محض اپنے صبر استقلال و استقامت اور سیاسی بصیر ت کی بنا پر چو تھی با ر ایوان اقتدار تک پہنچنے کے قریب ہے اس سے یوں ہی لگتا ہے کہ رب تعالی میاں صاحب سے مزید کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے ایسا کام کے ملک افراط زر اور معاشی بد حالی کے گھپ اندھیروں سے نکل سکے اب جب کہ میاں صاحب وطن واپس اکر کھلے دل سے عدالتوں کے سامنے اپنے مقدمات کے لیے پیش ہو رہے ہیں تو مخالفین و حا سد ین کے پیٹ میں اٹھنے والے مروڑوں میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے نہ صرف یہ بلکہ ان کی تو پوں سے مسلسل ہرزہ سرائی کے گولے بر سائے جا رہے ہیں جو پایئداری اور منطق سے عاری ہو نے کی بنا پر نکلتے ہی ٹھس ہو جاتے ہیں میاں صاحب کی وا پسی سے جہاں مخالفین کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں وہاں بہت سے سیاسی پنڈتوں کے تجزیے تبصرے اور پیش گوئیاں بھی جھوٹ ثابت ہو چکی ہیں اسی طرح بہت سے چورن بیچنے والوں کی دکانیں بھی بند ہو چکی ہیں جب ان کے پاس کچھ نہیں بچا تو آ جا کے لیول پلینگ فیلڈ اور میچ فکسڈ و لندن پلان کا بیانیہ بنانے کی سر توڑ کو شش کی جا رہی ہے دیکھا جا ئے تو پچھلے دس سالوں سے بیانیوں کی دوڑ نے ملک کو جتنا نقصا ن پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا 2012سے قبل نہ ہی کوئی یہ لیول پلینگ فیلڈ ہو تی تھی اور نہ ہی بیانیے بلکہ حکومت میں آ نے والی جماعت اپنی کارکردگی کی بنا پر مستقبل کے انتخابات میں اپنے ووٹرز کو اٹر یکٹ اور کنووینس (Attract and Convince) کر تی تھی لیکن انصافیوں نے سوچ رکھا تھا کہ علمی کار کردگی کی بجائے چرب زبا نی اور بیا نیوں کے کھیل سے اپنے کے اقتدار کو دوام بخشا جائے جس طرح ریت کی دیوار اور ہوا بھرے غبارے میں کوئی پا یئداری نہیں ہوتی اسی طرح تحریک انصاف بیانیہ کی مصنوعی دوڑ کے ذریعے صرف اور صرف ساڑھے تین سال تک ہی اقتدار کے مزے لو ٹ سکی میا ں صاحب کے بیانیوں کی فکر کر نے والوں کو فکر مند ہو نے کی کوئی ضرورت نہیں جن کے مطابق اب ان کے پاس کہنے کو اور ووٹر کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کچھ نہیں بچا مگرمیاں صاحب کا اپنے تاریخ ساز استقبالی جلسے سے خطاب میں ان کا مسلم لیگ نون کے بیانیہ کے متعلق دو ٹوک بیانیہ ایک محب وطن کا عکا س ہے جو کھوکھلے نعروں کی بجائے عملی کارہائے نمایاں پر انحصار کرتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نون لیگ کا بیانیہ جاننا چاہتے ہیں تو 28مئی یوم تکبیر، ملک میں مو ٹر ویز کے جال کا پھیلاﺅ،نئے ڈیموںکی تعمیر ،دائمی دہشت گردی کا خاتمہ اور 2017 تک ملک میں مستحکم معاشی ریل پیل کو دیکھ لیں جو ہماری منہ بو لتی کارکر دگی ہے اور اس کارکردگی کی عوام ابھی تک متعرف ہے اس تناظر میں میاں صاحب بڑے واضح طریقے سے اپنا ایجنڈا بیان کر چکے ہیںجنہوں نے محض پاکستانی عوام کی خاطر اپنے سابقہ تمام بیانیوں کو نہ صرف پس پشت ڈال دیا بلکہ مہنگائی سے پسی ہو ئی عوام اور ملک کو بحران سے نکالنے کی خاطر ما ضی میں اپنے ساتھ ہو نے والی تمام زیا دتیوں اور رنجشوں کو بھلا کر قومی معاشی انقلاب کا عندیا دیا میاں صاحب کے اس فقید المثا ل جلسے سے نون لیگ اور شین لیگ کے پرو پیکنڈے کا بیانیہ بھی اپنی موت آپ مر گیا اس ضمن میں میاں شہباز شریف کے بقول '' میاں صاحب کی واپسی سے اگر سیاسی ماحول یکسر بدل چکا ہے تو انشااللہ مستقبل قریب میں ملک کا معاشی ماحول بھی بدلے گا''لیکن میاں برادان کو یہ بخوبی علم ہے کہ اس معاشی ماحول کی تبدیلی اور یاران وطن کو سکھ کا سانس فراہم کر نے کے لیے یہ راستہ انتحابات کے مرحلہ میں سے ہی گزر کر ممکن ہو گا لیکن حیرت اس امر کی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ابھی تک قیاس آرایاں اور جہ میگوئیاں ہی زیر گردش میں تا ہم الیکشن کمیشن آف پا کستان نے سپریم کو رٹ میں انتحابات کی حتمی تاریخ دینے کی تیاریاں مکمل کر لیں ہیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں کا عمل 30نو مبر تک مکمل ہو جائیگا اگر چہ یہ ایک خو ش آئندخبر ہے مگر جب تک آفشل سطح پر اس کا اعلان نہیں ہو تا سیاسی جماعتوں اور عوام میں انتخابات کے حوالے سے سوالات اور اضطراب برقرار رہے گا۔کیونکہ انتحابات ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعہ عین درست عوامی پاور شو اور جمہوری طاقت کا سر چشمہ کاحصول ممکن ہے ورنہ جلسے اور گلیب سروے چاہے لا کھ کامیاب ہوں مگر جب تک اقتدار تک پہنچے کا درست راستہ نہیں اپنا یا جائے گا تب تک ساری باتیں ہو ائی تصور کی جائیں گی قومی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پا کستان کا چند روز قبل پیش کیا جانے والا وضاحتی بیان بھی اپنی اہمیت کا حامل ہے جس کی ضرورت صدر مملکت پاکستان عارف علوی کے ایک حالیہ انٹرویو کے بعد پڑی جس میں انہوں ایک بار پھر تحریک انصاف کے مائینڈ سیٹ کی عکاسی کرتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بے یقنینی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے تو انتخابات جنوری کے آخر تک بھی ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے حیرت اس امر کی ہے کہ جناب صدر پاکستان ابھی تک قومی صدر بننے اور اپنے بیانات کے ذریعہ قومی سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کی بجاے پارٹی کے وفادر و ترجمان بننے کی کوشش کی حالانکہ جب بھی صدر پاکستان نے اپنے اختیار سے تجاوز کر انصافی کارکن کی مانند سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی کوشش تب ہی انکو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اب اگر روانگی کے قریب بھی انکو اپنی عزت اور قد کو بحال رکھنا نہیں آیا تو پھر کب آئے گا؟؟ البتہ انتخابات کو حوالے سے اداروں کی سنجیدگی اور یقین دہانی قابل ستایئش ہے تاہم اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس ضمن میں اپنا دباﺅ بڑھانا ہو گا ۔

ای پیپر-دی نیشن