سر زمینِ پاکستان پر پہلی جنگ
پاکستان کے قیام کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ افغانستان نے بلوچستان پر مئی 1948ءمیں حملہ کر دیا۔ میجر جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) کوئٹہ بلوچستان میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تھا۔اسے اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ شہزادہ عبدالکریم (والیِ قلات کا چھوٹا بھائی)32ہزار افغان لشکر کے ساتھ بلوچستان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس لشکر میں انگریز، بھارتی آفیسرز اور بھارتی ٹروپس جو سب افغان آرمی یونیفارم میں ملبوس اس لشکر میں شامل ہیں۔ ان میں پہلا انگریز مسٹر فیل (Fell) تھا جو سیاسی مشیر تھا اور فتح کے بعد وہ قلات کا وزیراعظم مقرر ہونا تھا۔ دوسرا برگیڈئیر اینڈرسن(Anderson) تھا جو ساری فوج کا کمانڈر تھا۔ باقی چند بھارتی آفیسرز تھے جن کی تفصیل نہیں ملی۔ جنرل اکبر کے پاس فوری طور پر 17بلوچ رجمنٹ تھی جسے کرنل (بعد میں برگیڈئیر)گلزار احمد کمانڈ کر رہا تھا۔یہ تعداد افغان ٹروپس کے مقابلے میں بہت کم تھی۔بہرحال ان دونوں نے مل کر غیر معمولی اور غیر روایتی اقدامات کا فیصلہ کیا۔مزاحمتی جنگ کی منصوبہ بندی کی اور اپنی جنگی منصوبہ بندی جی ایچ کیو بھی بھیج دی۔ اتنی دیر میں یہ اطلاع کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع (لیاقت علی خان)تک بھی پہنچی تو انھوں نے فوری طور پر جنرل اکبر کو کراچی بلایا۔ وہاں وزیر دفاع کی موجودگی میں کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے انھیں بریف کیا کہ 52ہزار ٹروپس سرحد عبور کر رہے ہیں۔ جنرل اکبر کو جنگ کا کمانڈر مقرر کیاگیا اور انھیں 2بریگیڈ لاہور سے ایک بریگیڈ حیدرآباد سے، پاکستان نیوی سے تین جنگی جہاز اور ائیر فورس کے ایک لڑاکا طیاروں کا سکواڈرن اس جنگ کے لیے دیے گئے ۔لاہور برگیڈ کے ساتھ جنرل افتخار خان بھی ہوں گے جو جنرل اکبر خان کے سیکنڈ اِن کمانڈ ہوں گے۔
جنرل محمد اکبر خان پہلے ہی اس جنگ کی منصوبہ بندی کر چکے تھے، لہٰذاانھوں نے فوری طور پر یہ ٹروپس لینے سے انکار کردیا۔ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ کوئٹہ میں موجود اپنے ٹروپس کے مطابق منصوبہ بندی کر چکے ہیں تو وہ انھی کے ساتھ جنگ لڑیں گے۔ وہ اپنی پلان جی ایچ کیوبھی بھیج چکے ہیں اس لیے وہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کے حق میں نہ تھے۔حالانکہ ان کے پاس کوئٹہ میں صرف ایک بٹالین تھی۔جنرل اکبر نے مزید کہا کہ یہ ٹروپس تیار رکھے جائیں اسے جونہی ضرورت پڑے گی وہ انھیں بلوالے گا۔دراصل اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ انگریز آفیسرز حتیٰ کہ کمانڈر انچیف تک پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں تھے۔پاکستان کے پاس اس وقت ویسے ہی بہت تھوڑی فوج تھی اور وہ بھی زیادہ تر کشمیر میں مصروف عمل تھی۔پیچھے چھاو¿نیوں میں بہت معمولی نفری ایمرجنسی کے لیے موجود رکھی گئی تھی۔ اگر لاہور سے دو بریگیڈ اور حیدرآباد سے ایک بریگیڈ نکال لیے جائیں تو بھارت کے لیے لاہور ،حیدرآباد اور کراچی بہت ہی آسان ٹارگٹ ہوں گے۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ اپنی دی گئی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لیے بضد تھا، لہٰذا وزیر دفاع کی موجودگی میں جنرل محمد اکبر خان کی کمانڈر انچیف جنرل گریسی سے تو تو میں میں ہوگئی۔جب بات زیادہ بڑھی تو محمد اکبر خان نے کہہ دیا کہ’اگر آپ کو میرے پلان سے اتفاق نہیں تو میری جگہ کوئی اور جنرل پوسٹ کردیں ۔‘اس بات پر اسے وزیر دفاع نے معطل کردیا۔اسے مزید حکم دیا گیاکہ وہ کوئٹہ واپس جاکرقائد اعظم سے ملیںجو اس وقت کوئٹہ میں تھے۔اسے ائیر فورس کا ایک جہازکراچی سے کوئٹہ چھوڑنے آیا۔جونہی وہ ائیر پورٹ پر اترا وہاں پر قائد کا بندہ انتظار کر رہا تھا، لہٰذا وہ اس کے ساتھ قائد کے پاس چلا گیا۔
وہ قائد کی طرف سے بہت سخت رویے کی توقع کررہا تھااور دل میں خوف زدہ تھا۔لیکن حیران کن بات کہ قائد کا رویہ بہت مشفقانہ تھا۔قائد نے اسے کافی پلائی۔ ادھر ادھر کی گپ لگائی اور پھر اس کے تمام اعتراضات بہت خوش دلی سے سنے۔ پوری تفصیل سننے کا بعد قائد نے پوچھا کہ ’اگر آپ کو اپنے پلان پر عمل کرنے دیا جائے تو کیا آپ حالات پر قابو پالیں گے؟‘ ’مجھے اپنے پلان پر مکمل اعتماد ہے‘جنرل اکبر نے جواب دیا۔تو قائد نے اسے اوکے دیدیا ۔ساتھ ہی کراچی فون کر کے بتا دیا کہ’میں نے جنرل کی پلان منظور کر لی ہے۔‘تو جنرل صاحب نے واپس آکر کرنل گلزار کو بتایا کہ’منصوبہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں۔اس پر عمل شروع کریں۔‘انھیں خزانے سے پانچ ہزار روپے بھی مل گئے ۔ضرورت پڑنے پر مزید کا وعدہ بھی کیا گیا۔کرنل گلزار نے پہلے ہی بلوچی لباس سلوانے کا آرڈر دے رکھا تھا۔جلدی سے مزید لباس تیار کرائے گئے اور کرنل گلزار نے اپنی بٹالین کی دو کمپنیوں کو بلوچی لباس پہنا کر شہزادے کی فوج میں شامل کر دیا۔شہزادے کے خیال میں یہ مینگل قبیلے کے لوگ تھے جو اس کی مدد کو آئے تھے۔باقی دو کمپنیوں کو خفیہ طور پر قلات کے جنوب میں کچھ فاصلے پر چھپا دیاگیا۔کرنل گلزار خود بھی بلوچی لباس میں اپنے ٹروپس کے ساتھ رہا۔
قلات کا ایجنٹ جنرل سائیر نامی انگریز تھا جو کافی تیز طرار انسان تھا۔وہ جنرل صاحب کے ٹیکٹیکل ہیڈ کوارٹرز میںآ موجود ہوا۔جنرل صاحب کو تو ویسے ہی انگریز آفیسرز پر اعتماد نہیں تھا، لہٰذا انھوںنے سمجھدار طریقے سے ایجنٹ کو قلات واپس بھیج دیا۔ اپنا اے ڈی سی بھی ہمراہ کردیا۔ایجنٹ کوجنرل نے بتایاکہ اگر کوئی نئی خبر ہو تو اسے بتائی جائے۔اس وقت بلوچ ٹریننگ سینٹربھی کوئٹہ میں تھا۔وہاں کافی لوگ انڈیا سے آکر اپنی پوسٹنگ کا انتظار کر رہے تھے۔جنرل نے حساب لگایا تو یہ ریکروٹوں کے علاوہ تقریباًڈیڑھ بٹالین سولجرز تھے۔جنرل نے ریکروٹوں سمیت سب کو قلات بھیج دیا۔ وہاں یہ لوگ خان آف قلات کے مہمان تھے۔اب جنرل صاحب خود بھی قلات آگئے اورشاہی مہمان خانے کو اپنا ہیڈ کوارٹرز بنا لیا۔جنرل کے حکم کے مطابق بلوچی ریکروٹ خوب گاتے بجاتے رہے تاکہ ان کی فوجی کارروائی پر کسی کو شک نہ ہو۔اب جنرل نے ریکروٹوں کو چھوڑ کر باقی سولجرز قلات کے باہر سیبوں کے ایک باغ میں چھپا دیے۔ شہزادہ عبدالکریم ایک رات پہلے ہی افغان بارڈر کراس کر کے قلات کے باہر خضدار کی طرف چلا گیا تھا۔ وہاں سے اس نے پہاڑوں کی طرف جانا تھا۔جنرل اکبر اور کرنل گلزار کا پلان یہ تھاکہ انھیں گھیرے میں لے لیا جائے۔اسی لیے ٹروپس خفیہ طور پر قلات کے باہر بھیجے گئے تھے۔کرنل گلزار بالکل شہزادے کے پیچھے پیچھے رہا۔ اب شام کو جنرل صاحب اور کرنل گلزارنے اپنے منصوبے پر عمل شروع کیا۔ پتا چلا کہ کل صبح شہزادے کی فوج کرنل گلزار کے جوانوں پر حملہ کر دے گی۔ چنانچہ کرنل گلزار نے بھی اپنی پوسٹیں تیار کر لیں۔ صبح جب شہزادے کی فوج نے فائرنگ شروع کی تو انھیں سخت جواب ملا۔ سورج طلوع ہونے کے بعد پتا چلا کہ وہ ہر طرف سے گھیر لیے گئے ہیںتو انھوں نے بجائے لڑنے کے سفید جھنڈا بلند کر دہا۔ لیکن کرنل گلزار کا مطالبہ تھا کہ ہتھیار ڈالیں جو انھوں نے بالآخرمان لیا۔ کرنل گلزار کی فورس نے سب سے اسلحہ اکٹھاکیا۔ چیک کرنے پر پتا چلا کہ رائفلز درہ کی بنی ہوئی ہیں اور گولیاں بھارتی فیکٹری ایشیا پور کی بنی ہیں لیکن پرانی ہیں ۔ شہزادہ عبدالکریم کی تلاشی لی گئی تو کچھ بہت ہی اہم کاغذات ملے۔ مسٹر فیل اور برگیڈئیر اینڈرسن کے سامان کی تلاشی لی گئی تو مسٹر فیل سے ڈیڑھ لاکھ پونڈ اور برگیڈئیر اینڈرسن سے ایک لاکھ پونڈ کے ڈرافٹس کی رسیدیںملیں جو انھوں نے بھارت سے انگلینڈ بھیجے تھے۔ مزید دونوں سے دولاکھ پونڈ کے بینک آف انڈیاکے بینک ڈرافٹس ملے۔ بہرحال شہزادہ صاحب ،جنگ میںشامل بلوچ سردار اور انگریز آفیسرز کو پکڑاور لے جا کر قائد اعظم کے پیش کر دیا تو قائد نے مزید انکوائری کے لیے انھیں جیل میں بند کرادیا اور جنرل کو سختی سے حکم دیا کہ اخبار کو اس واقعہ کا پتا بالکل نہیں چلنا چاہیے کیونکہ افغانستان کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ چل رہے تھے تو یوں یہ جنگ بغیر لڑے اپنے اختتام کو پہنچی۔