کوئی سادہ ہی انہیں سادہ کہے
”نوائے وقت“ میں پچھلے دنوں ایک سید زادے نے اپنے کالم میں اک سوال اٹھایا ہے۔ یہ ”سوال درد کا ہے“کہ ان کے کالم کا لوگو بھی یہی ہے۔ کالم کا عنوان ہے ”سپریم کورٹ کے فیصلے پر پاکستان بن کر سوچنا ہوگا“۔ موصوف لکھتے ہیں ”سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں سنے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں کو ایک بار پھر خوش ہونے کا موقع مل گیا“۔ درد کے اس سوال نے بہت سے اور سوالات کو جنم دیا ہے۔
1۔ کیا ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج بھی پاکستانی بن کر نہیں سوچتے؟ 2۔ کیا 9مئی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے ؟راولپنڈی سازش کیس سے لے کر فوج اور سول حکومتوں کے خلاف گھناﺅنی سازشوں کی اک فہرست موجود ہے۔ 3۔ کیا 9مئی کے مبینہ ملزموں کو سول عدالتوں سے سزا دلوانا ممکن نہیں ؟ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں ملک بھر میں تمام سول عدالتیں بند کر کے فوجی عدالتیں بنا لینی چاہئیں۔
حضور! اہم تر توجہ طلب مسائل اور ہیں۔
بانی پاکستان نے قیام پاکستان سے پہلے 1946ءمیں مسلم لیگ کے دہلی کنونشن میں جوق در جوق شامل ہونبوالے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بارے میں خبردار کر دیا تھا ”ہر چند غریبوں کا خون چوسنا ان کی گھٹی میں شامل ہے تاہم پاکستان میں انہیں غریبوں پر مظالم روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جائیگی“۔ پھر قیام پاکستان کے بعد پانے والی اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے نہ صرف عساکر پاکستان کو سمجھایا کہ وہ سویلین کے احکام کے پابند رہیں بلکہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلے مسلم لیگی جنرل کونسل کے اجلاس میں زرعی اصلاحات کمیٹی بھی قائم کر دی۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر صرف مشرقی پاکستان میں عمل ہوا۔ مغربی پاکستان میں لیاقت علی خاں کی بار بار یاد دہانی کے باوجود عمل کرنے سے گریز کارویہ اپنایا گیا۔ کینیڈین ماہر سیاسیات کیتھ کیلارڈنے پاکستان کے پہلے چند برس کی سیاسی تاریخ پر اپنی کتاب میں لکھا کہ روزنامہ ”ڈان“میں جس روز قائد اعظم کی قائم کردہ زرعی اصلاحات کمیٹی کی خبر شائع ہوئی ، اسی روز اخبار میں اس خبر کے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ ایک سوسے زائد علماءنے زرعی اصلاحات کو ازروئے شریعت ناجائز قرار دے دیا ہے۔ اسی خبر میں یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ زرعی اصلاحات کمیٹی میں شامل دو ایک جاگیردار اراکین کے اشارے پر ہی علمائے کرام نے اسلامی شریعت کی یہ تاویل کی۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک نے اپنی کتاب ”پاکستانی ادب اور واردات عشق و جنوں“میں اسے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ بانی پاکستان کی قائم کردہ زرعی اصلاحات کمیشن کی سفارشات انکی رحلت کے بعد ہی منظر عام پر آئیں۔ مسعود کھدر پوش کے اختلافی نوٹ نے بہت شہرت پائی۔ ان کے اختلافی نوٹ کا پہلا جملہ ہی کافی شافی ہے۔A Hari is a domesticated animal ادھر کسی نے سیاسی کارکنوں کی بھی تربیت نہیں کی۔ بیچارے اپنے اپنے سیاسی قائد کے پالتو جانور بنے ان کیلئے اپنے دل میں یکطرفہ محبت بسائے ، دم ہلاتے انکی اردل میں حاضر باش دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جاگیردار کی تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں جاگیرکا تحفظ ہی اول و آخر ترجیح ہوتی ہے۔ سندھی ادیب مسلم شمیم نے اپنی کتاب ”لاڑکانے کے چہاردرویش“میں یہ بات یوں لکھی ہے :”کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا جئے سندھ کا نعرہ قومی شناخت کے ساتھ سندھ کے مظلوم عوام کیلئے جدو جہد کا نعرہ تھا۔ جبکہ جی ایم سید کی جے سندھ تحریک اور نعرہ سندھ قومیت کا وہ نعرہ ہے جس میں سندھ کے جاگیردار طبقے کے مفادات کو سندھ کے مظلوم عوام کے مفادات پر ترجیح اور برتری حاصل ہے “۔ چند برس پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں جی ایم سید کے پوتے سید محمود جلال شاہ بھی اس بات سے انکاری تھے کہ سندھ میں جاگیرداری کے باعث عوام کی زندگی عذاب میں ہے۔ انکے مطابق حالات کی خرابی صرف بری حکمرانی کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں زرعی اصلاحات کی راہیں مسدود کرنے کی خاطر نوابزادہ نصر اللہ خاں کی زیر قیادت انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت شریعت قائم کی گئی۔ جھنگ سے سید عابد حسین اور ملتان سے پیر نو بہار شاہ خاصے متحرک ہو گئے۔ صدرایوب خاں اور ذو الفقار علی بھٹو نے اپنے اپنے حکومتی عہد میں پوری جرا¿ت سے زرعی اصلاحات کا آغاز کر دیا۔ لیکن جنرل ضیاءالحق نے ایک جید مفتی سے جاگیرداری کے تحفظ اور زرعی اصلاحات کے شریعت کے منافی ہونے کا فتویٰ حاصل کر لیا۔ جناب عابدحسن منٹو نے اسکے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن ان کی رٹ اک زمانہ سے سپریم کورٹ کے کباڑ خانہ میں توجہ کی منتظر پڑی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک عام آدمی کیلئے زندگی بسر کرنے کیلئے چند گز اور دفن ہونے کیلئے چند فٹ زمین کا حصول بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ گھمبیر مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک زمین کی ملکیت کی حدود مقرر نہ ہوسکیں اور ملک کی زمین میں بے مالک لوگوں کے حقوق کا تعین نہ ہو سکے۔ مادر وطن کی وہ گود کتنی بے مہر ہے جہاں بچوں کیلئے گھر اور قبر میسر آنے کی بھی آسودگی نہیں۔
آج ہمارا ملکی سیاسی منظر نامہ پوری دنیا میں اپنی طرز کی انوکھی مثال ہے۔ پاکستانی افواج کے سپریم کمانڈر کتنی بے بسی سے فرما رہے ہیں کہ اگر میں صدر پاکستان نہ ہوتا تو جیل میں ہوتا۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی 1977ءکے منظر نامہ میں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی والے مقام پر کھڑی ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتی ہیں۔ اپنی جیت کیلئے وہ ہر بے اصولی کو تیار ہیں۔ دونوں جماعتیں اپنا اپنا حلقہ اثر رکھتی ہیں۔ دونوں اک دوسرے سے بات چیت کو تیار نہیں۔ مقتدر قوتوں سے دونوں رابطے کو ہردم تیار ہیں۔ پچھلے دنوں ن لیگ نے مینار پاکستان ایک بہت شاندار جلسہ کیا۔ ایک ن لیگی سابق ممبر قومی اسمبلی بتا رہا تھا کہ مجھے مقامی ڈپٹی کمشنر نے ٹرانسپورٹ کی پیشکش کی لیکن میں نے پیشکش ٹھکرا دی اور اپنے پلے سے اپنے حلقہ کے لوگوں کو جلسہ گاہ پہنچانے کا بندوبست کیا۔ یہ انکشاف کرتے ہوئے اسکے لب و لہجے سے مالی تغافر بھی عیاں تھا۔ میاں نواز شریف اپنی تقریر کے دوران عوام سے پوچھنے لگے :وہ کون ہے جوہر چند سال بعد میرے اور آپ کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے ؟ کیا میاں صاحب واقعی نہیں جانتے ؟ کیا واقعی ؟ کوئی سادہ ہی انہیں سادہ کہے۔