• news

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء

آپ کے 720 ویں پانچ روزہ سالانہ عرس مبارک کی تقریبات کا نئی دہلی میں آغاز
آپ کی والدہ محترمہ زلےخا بی بی نے جس طرح آپ کی تربیت کی وہ آج بھی ماﺅں کے لئے روشن مثال ہے
 حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے سب سے بڑے روحانی کمالات میں بڑا کمال 
دہلی کی اس روحانی امن کار نے دہلی کے درجن بھر بادشاہوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ساتھ دینے سے انکار کیا
خالد بہزاد ہاشمی
حضرت سلطان المشائخ، محبوب الٰہی سلطان جی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے 720ویں پانچ روزہ سالانہ عرس مبارک کی تقریبات دہلی میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءپر بصد تزک و اختتام شروع ہو چکی ہیں۔ جس میں دنیا بھر سے زائرین شرکت کر رہے ہیں اور شہر میں میلے کا سماں ہے دہلی سے سجادہ نشین درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءدیوان برادرم سید طاہر نظامی صاحب نے بھی فون پر عرس مبارک کی تفصیلات سے آگاہ کیا کہ آپ کے عرس مبارک کی تقریبات16 تا20 ربیع الثانی(یکم تا پانچ) جاری رہیں گی، جبکہ بڑا قل شریف 3 نومبر کو صبح گیارہ بجے درگاہ پر منعقد ہوگا۔ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءسلسلہ چشتیہ کے چوتھے ماہ تاباں ہیں جو دلی کو اپنی روحانی کرنوں سے روشن و منور کر رہے ہیں انہیں پاکپتن شریف کے درویش اور ان کے مرشد شیخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے خلافت عطا فرمائی تھی جب کہ حضرت بابا جی کو ان کے مرشد اور دہلی میں آسودہ خواب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے خلافت مرحمت فرمائی جب کہ حضرت خواجہ قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، بزرگ خواجہ، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے خلافت کا تاج عطا فرمایا تھا۔ حضرت محبوب الٰہی بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور نانا سید علی اور سید عرب دونوں بھائی بخارا میں میں مقیم تھے اور مغلوں کے حملے میں ہجرت کرکے لاہور آگئے اور یہیں حضرت خواجہ سید علی کے ہاں صاحبزادے سید احمد اور حضرت خواجہ سید عرب کے ہاں صاحبزادی زلیخا پیدا ہوئیں بعدازاں سایہ خاندان بدایوں آباد ہوگیا اور وہیں سید احمد اور بی بی زلیخا کی شادی ہوئی جن سے سید محمد پیدا ہوئے جو سطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی اور حضرت نظام الدین اولیاءکے نام سے مشہور ہیں آپ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوئے، والدہ نے جس طرح سے آپ کی تعلیم و تربیت کی وہ آج کی ماﺅں کے لئے روشن مثال ہے۔ دہلی میں حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رہتے تھے آپ کی والدہ نے آپ کو اس کے پاس بھیجا جنہوں نے انہیں اپنے بھائی شیخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن و پاکپتن شریف بھیجا یہ حضرت بابا جی کے روحانی کمالات میں سب سے بڑا کمال حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءہیں جنہوں نے ہندوستان کو نورولایت سے منور فرما کر رشد و ہدایت کا ذریعہ بنایا اور تاج کرامت آپ کے سر پرانوار پر رکھا۔ یہ حضرت بابا جی کی دعا کا فیض تھا کہ انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ تو جو خدا سے چاہے گا وہ پائے گا حضرت بابا جی نے ان کے لنگر میں روزانہ ستر من نمک استعمال ہونے کی دعا دی تھی ان دنوں ایک من چالیس سیر کی بجائے بارہ تیرہ سیر کے برابر ہوتا تھا اور پھر ایک عالم نے دیکھا کہ حضرت بابا جی کی یہ دعا کیسے پوری ہوئی۔ حضرت محبوب الٰہی کو شب عبادت میں حق تعالیٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ نظام جس مومن نے تیری زیارت کی یا کرے گا۔ ہم اسے بخش دیں گے تیرہویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے اوائل کی دہلی میں آپ سے سے منفرد کردار کے حامل ہیں آپ کو سلسلہ چشتیہ کے عدم تشدد کے تصور کو ثقافتی مذہبی رواداری اور امن پسندی کی شکل دینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دور میں درجن بھر بادشاہ آئے لیکن ولی کے اس روحانی سلطان اور امن کار نے شہنشاہوں اور بادشاہوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ساتھ دینے سے مکمل انکار کیا اور کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں(ماسوائے سماع پر مناظرہ کے) کبھی حاضر نہ ہوئے۔
ایک محبوب سبحانی دوسرا محبوب الٰہی
ایک کا لنگر اہلِ بغداد اور دوسرے کا اہلِ دہلی تناول کرتے
آپ کے سالانہ مبارک کی تقریبات سے قبل حضرت غوث الاعظم محبوب سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی کے سالانہ عرس مبارک کی تقریبات کا آغاز درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءپر باتزک و احتشام شروع ہو جاتا ہے اور بستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءبقہ¿ نور بن جاتی ہے۔ یہ بھی کیا خوبصورت حسنِ اتفاق اور قدر مشترک ہے کہ ان میں سے ایک محبوب سبحانی اور دوسرا محبوب الٰہی ہے۔ ایک کا لنگر پورا بغداد شریف اور گردو نواح کے لوگ اور دوسرے کا لنگر پوری دہلی تناول کرتی تھی اور دونوں کا روحانی فیض صدیوں بعد بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔
................
آج ہم اللہ کے مہمان ہیں
والدہ یتیم لخت جگر کو فاقہ کے ساتھ مکتب بھیجتیں
 مولانا نظام کو حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام ا لدین اولیاءبنانے میں ان کی قابل فخر والدہ محترمہ حضرت بی بی زلیخا کا بڑا ہاتھ ہے، جنہوں نے انہیں صبر، قناعت، توکل کے علاوہ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ پیراستہ کیا، ننھے یتیم لخت جگر نظام کو سینے پر صبر کی سل رکھ کر فاقہ کے ساتھ مکتب بھیجتیں اور بعض اوقات یہ فاقہ تین تین دن پر محیط ہو جاتا اور وہ اس فاقہ کشی پر لخت جگر سے کہتیں کہ بیٹا آج ہم اللہ کے مہمان ہیں، ننھے نظام کا دل ماں کی زبان سے یہی الفاظ سننے کا مشتاق رہتا کہ آج ہم اللہ کے مہمان ہیں کیونکہ یہ جملہ سن کر انہیں جو روحانی لطف و سرور ملتا وہ بیان کرنے سے قاصر تھے ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ آج ہے کوئی ایسی ماں جو اپنے اکلوتے یتیم بچے کی ایسی تربیت کرے؟
....................
والدہ محترمہ نے ننھے نظام کی تعلیم کے لئے بدایوں کی جائیداد فروخت کر دی
 حضرت بی بی زلیخا کا تعلق بدایوں کے متمول خاندان سے تھا لیکن وہ صاحب حیثیت بھائیوں سے کوئی مدد نہ لیتیں، اپنے اکلوتے صاحب زادے کی پرورش گھر میں سوت کات کرکی جسے لونڈی بازار میں فروخت کر آتی، ننھے نظام کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بدایوں میں اپنے حصے کی خاندانی جائیداد فروخت کر دی، یہ ان کے استاد محترم مولانا علاﺅالدین اصولی حضرت خواجہ علی(مرید خاص حضرت شیخ جلال الدین تبریزی) کی تربیت اور دعاﺅں کا نتیجہ تھا کہ کمسنی اور نوعمری میں ہی حضرت بی بی زلےخا کا لخت جگر مولانا نظام الدین بحاث شکن اور محفل شکن کے نام سے مشہور و مقبول ہوگیا، وہ ہر مشکل سے مشکل مسئلہ اور سوال کا برجستہ جواب اتنے مدلل دلائل سے دیتے کہ سننے والے سشدررہ جاتے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءستر برس کی عمر میں بھی والدہ کا ذکر کرتے تو ہچکیاں بندھ جاتیں، ان میں جب تک چلنے کی سکت رہی وہ مرحومہ والدہ محترمہ کی قبر پر ضرور حاضری دیتے جو آج بھی قطب مینار کے نزدیک حضرت بی بی صاحبہ کے نام سے مرجع خلائق ہے اور دلی کے معروف دانشور، جرنلسٹ اور لیکچرار برادرم سید عنین الحق نے ان پر کتاب بھی تحریر کی ہے۔
................
شیخ فرید کی قسم
 حضرت محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو مختلف بزرگوں کا تذکرہ کر رہا تھا تو وہ مرید ہونے کے لئے حاضر ہوئے۔ دوسرے واقعات کے علاوہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کا ذکر کرنے لگا تو خود بخود ان کے دل میں ان کی عقیدت بڑھتی ہی چل گئی اور یہ عقیدت اتنی بڑھی کہ ہر نماز کے بعد حضرت دس دفعہ شیخ فرید اور دس دفعہ مولانا فرید کہا کرتے، دوست احباب کو بھی اس عقیدت اور محبت کا پتہ چل گیا تھا۔ جب کبھی قسم کھانے کا موقع آتا تو دوست ان سے کہا کرتے کہ شیخ فرید کی قسم کھاﺅ۔ یہ جان کر ان کے دل میں بابا صاحب کی محبت اور بھی پکی ہوگئی۔
 اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ!
 جب حضرت محبوب الٰہی اجودھن پہنچے ہیں تو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر انہیں دیکھ کر یہ شہرہ آفاق شعر پڑھتے ہیں۔ 
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ
(تیری جدائی کی آگ نے بہت دلوں کو کباب کر رکھا تھا اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے بہت سی جانوں کو خراب کر رکھا تھا) بعدازاں حضرت بابا جی نے اپنے داماد اور خلیفہ حضرت بدرالدین اسحاق جن کا تعلق بھی دلی سے تھا حضرت نظام الدین اولیاءکو ان کا مہمان بنایا اور پیر کے ادب و آداب سکھانے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت بدر الدین اسحاق حضرت خواجہ حسن نظامی کی فیملی اور موجودہ دیوان و سجادہ نشین سید طاہر نظامی کے جدامجد اور حضرت محبوب الٰہی کے تعلیمی مرشد بھی ہیں۔
 چشم حیراں ہے
حضرت نظام الدین اولیاءحضرت شیخ العالم 
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی زیارت کے لئے اجودھن پہنچتے ہیں تو حضرت بابا فرید گنج شکر نو عمر نظام الدین کو دیکھتے ہی بے اختیار کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ کو سینے سے لگاتے ہیں جہاں تمام درویش اور مریدین حیران وہیں چشم فلک بھی محو حیرت ہے لیکن ابھی مزید حیرانی باقی ہے شب ہوتی ہے خانقاہ فرید پر سینکڑوں درویش، خدام فرش اور چٹائیوں پر محو خواب ہیں اور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے حکم سے نو عمر نظام الدین کے لئے چار پائی کا اہتمام ہوتا ہے لیکن حیرانی ابھی باقی ہے حضرت بابا فرید گنج شکر انہیں بیعت کرتے ہیں لیکن ان کی نکلتی رنگت پر خوبصورت گھنگریالے بالوں کو منڈوانے سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔
 نظام الدین کا احترام کرنے والوں پر خدا کی رحمت
 اب حضرت شیخ العالم بابا فرید گنج شکر کا حضرت نظام الدین اولیاءپر اعتماد اور ان کی جملہ خوبیوں پر ان کی نظر کرم واضح ہو، جب انہیں خلافت نامہ عطا کرتے ہیں تو تحریر فرماتے ہیں دوران تدریس میں نے اسے قابل، اہل خوش اطوار اور خوش سلیقہ شخص پایا نظام الدین دنیاوی اور دینی معاملات میں میرا حقیقی جانشین اور خلیفہ ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے نظام الدین کا عزت و احترام کرنے والوں پر خدا کی رحمت ہو، جس کی میں بھی عزت کرتا ہوں اس کی عزت نہ کرنے والے کو خدا”بے توقیر کرے، یہ سب الفاظ فقیر مسعود کے ہیں“۔
حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے جب حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکو خلافت عطا کی تو خلافت نامے پر مہر اور تصدیق کے لئے انہیں حضرت قطب جمال الدین ہانسوی کے پاس ہانسی بھیجا تھا اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءان کے پاس ہانسی میں مقیم رہے تھے، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کو حضرت قطب جمال الدین ہانسوی سے اتنی محبت تھی کہ ان کے پاس تیرہ سال ہانسی میں مقیم رہے۔ حضرت قطب جمال الدین ہانسوی نے ان تاریخی الفاظ میں خلافت نامہ کی تصدیق فرمائی۔
خدائے جہاں را ہزاراں سپاس
کہ گوہر سپرد بہ گوہر شناس
خدا تعالیٰ کا ہزاروں شکر کہ موتی اسے سونپا گیا جو موتی کی قدر کرنا جانتا ہے۔
اس گناہ گار کا تعلق بھی حضرت قطب جمال الدین ہانسوی کے خانوادہ سے ہے۔ ہمارے والد محترم ڈاکٹر سعید الدین ہاشمی مرحوم (ایئر فورس) اور والدہ مرحومہ بھی درگاہ شریف چہار قطب ہانسی کا بہت تذکرہ کیا کرتیں۔ اس گناہ گار کوبھی درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا دہلی کے سجادہ نشین اور مصور فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی کے قابل فخر صاحبزادے حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی دہلوی کی بیعت کا شرف حاصل ہے۔ میری مشتاق نگاہیں دن میں درجنوں بار درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءاور درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی(دہلی) کا طواف کر آتی ہیں۔
فن قوالی کو سب سے پہلے اجتماع عام میں رواج دیا
حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءنے فن قوالی کو سب سے پہلے اجتماع عام میں رواج دیا، وہ اعلیٰ درجے کا شستہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہیں موسیقی پر بھی ان کی گہری دسترس تھی، فن قوالی کے امام حضرت امیر خسرو انہیں کے ہاتھ کے تراشے ہوئے گوہر نایاب و یکتا ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکی خانقاہ میں محافل سماع باقاعدگی سے ہوا کرتیں اور لوگ ان میں والہانہ اور دیوانہ وار شرکت اور عالم وجد میں رقص بھی کرتے۔ سماع کی محافل محدود جبکہ قوالی کی محفل میں شرکت عام ہوا کرتی۔
جماعت خانہ ہر کوئی دن رات آ سکتا تھا ماسوائے بادشاہ سلامت کے
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے جماعت خانہ میں ہر خاص و عام کو آنے کی اجازت تھی ماسوائے بادشاہ وقت کے جو آنے کے لئے درخواستیں کرتے مگر آپ ملنے سے ہمیشہ معذرت کرتے، شہشاہ جلال الدین خلجی نے چھپ کر بھیس بدل آنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت امیر خسرو نے آپ کو بروقت آگاہ کر دیا اور دہلی سے باہر تشریف لے گئے، وہ بادشاہوں کو یہی پیغام بھجواتے کہ فقیر کی کٹیا کے دو دروازے ہیں اگر بادشاہ ایک دروازے سے اندر آیا تو میں دوسرے سے باہر نکل جاﺅں گا، ایک بادشاہ کے آنے کی خبر سن کر آپ اجودھن پاکپتن شریف، تشریف کے گئے تھے۔ جبکہ عام لوگوں کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا، اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی استراحت فرماتے تو ہدایت فرماتے کہ اگر کوئی سائل آ جائے تو فوراً اٹھا دیا جائے اور کبھی کسی کو ناخوش واپس نہ کیا جائے۔
حسن گنگوہی کو دکن میں بہمنی سلطنت کی بشارت
شاہی افسر حسن گنگوہی آپ کا مرید تھا آپ نے اسے نئی اور طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھنے کی نوید سنائی اور روٹی کا ایک ٹکڑا اپنی انگلی کے ساتھ لگاکر دیا اور فرمایا کہ وہ اسے اپنی سلطنت کے نشان کے طور پر محفوظ رکھے اور پھر حضرت کے فرمان کے مطابق1347 میں حسن گنگوہی نے دکن میں ہہمنی سلطنت قائم کی اور وہ حسن گنگو علا¶الدین حسن بہن شاہ کے نام سے بادشاہ بن کر تخت نشین ہوا۔ وہ تاحیات اپنی بادشاہت کو حضرت کی عطا کہا کرتا اس نے تخت نشین ہو کر حضرت نظام الدین اولیاءکے نام پر چار سو طلائی اور ایک ہزار سونے کی اشرفیاں خیرات کیں۔
................
سلطان علاﺅالدین خلجی نے موتیوں کے تھال بھیجے
آپ کی دعا سے مغل فوج دہلی کا محاصرہ چھوڑ کر واپس لوٹ گئی
مغلوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ لشکر کے ساتھ، دیپالپور، لاہور، ملتان کو تاراج کرتے دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شہر کا محاصرہ کر لیا، سلطان علاﺅالدین خلجی نے فوج کا بڑا محاذ پر بھیج رکھا تھا، شہر بھر میں سراسیمگی پھیل گئی، بادشاہ نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے پاس دعا کے لئے آدمی بھیجے کہ مغل حملہ آور واپس چلے جائیں۔ حضرت نے دعا فرمائی اور جوابی پیغام بھجوایا کہ مغل فوج انشاءاللہ کل واپس چلی جائے گی، یہ سن کر سب حیران تھے کہ تمام شہروں کو تاراج اور غارت کرکے دلی تک پہنچنے والے کل اپنے آپ کیسے چلے جائیں گے اور پھر اگلی صبح اہالیان دہلی نے فصیل سے جھانک کر دیکھا کہ مغل فوج کا نام و نشان نہ تھا وہ حضرت کی دعا کے طفیل واپس جا چکی تھی۔ بادشاہ نے نذر کے لئے کئی تھال موتیوں کے آپ کی خدمت میں بھیجے جو آپ نے اسی وقت مستحقین میں تقسیم کر دیئے۔
............
دہلی میں خشک سالی، والدہ کی قمیض کا ٹکڑا اٹھا کر دعا مانگی تو جل تھل ہوگیا
 دلی میں سخت خشک سالی اور قحط کا سماں ہے مخلوق خدا پریشان حال پھرتی اور باران رحمت کو ترستی ہے، لوگ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکی درگاہ میں باران رحمت کی دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں، آپ مسجد کے منبر پر تشریف فرما ہوتے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک قیمض کا پرانا کپڑا ہے، آپ اسے ہاتھ میں بلند کرکے بارگاہ ایزدی میں دعا فرماتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ یہ قمیض کا کپڑا اس ضحیفہ کا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نظر نہیں پڑی تجھے اس کپڑے کی حرمت کا واسطہ تو باران رحمت نازل فرما، ادھر آپ کی دعا ختم ہوئی اور ادھر رحمت خدا وندی جوش میں آئی اور پورے دہلی میں جل تھل ہوگیا اور مخلوق خدا کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ کروڑوں رحمتیں نازل ہوں حضرت بی بی زلےخا کے مرقد پر۔ آمین
باولی کا پانی روشن ہو گیا
بادشاہ غیاث الدین تغلق جو حضرت سے عداوت رکھتا تھا اس نے اپنا عالی شان قلعہ اور محل بنانے کا حکم دیا جس پر سونے کے پتر چڑھائے جا رہے تھے اسی دوران حضرت نے درگاہ میں باولی بنانے کی ہدایت کی قلعے کے قیام مزدور باولی بنانے کے لئے آگئے جنہیں بادشاہ نے حکم کے ذریعے منع کر دیا۔ جب مزدوروں نے رات کو چراغ جلا کر باولی بنانا چاہی تو منادی کر کے انہیں تیل دینے سے منع کیا۔ حضرت نے یہ صورتحال دیکھ کر حضرت نصیرالدین کو باولی کا پانی کونڈوں میں بھر کر ان میں بڑی بتیاں ڈال کر جلانے کا حکم دیا جو اللہ کے حکم سے روشن ہوگئیں اور حضرت نصیرالدین محمود کا لقب ”چراغ دہلی“ دہلی کا چراغ مشہور ہو گیا۔
................BOX
ابھی دلی دور ہے
غیاث الدین تغلق بھی اپنے پیش رو قطب الدین م بارک کی طرح حضرت محبوب الٰہی کی دشمنی میں مبتلا تھا اس نے بنگال کی مہم پر جانے سے قبل حضرت کو فرمان بھیجا کہ میرے آنے سے قبل دہلی سے رخصت ہو جا¶ جس پر آپ نے وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا کہ ”ہنود دلی است“ (ابھی دلی دور ہے) وہ بنگال کی مہم سے واپس لوٹا تو اس کے ولی عہد شہزادہ ملک جونا نے باپ کے استقبال کے لئے شہرسے باہر لکڑی کی نئی بارہ دری بنوائی۔ باپ کو ہاتھیوں کی نذر کے ساتھ سلامی کے لئے پیش کی تو نئی چوبی بارہ دری زمین بوس ہوگئی اور تغلق اس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا اور آپ کا فرمان کہ ہنوز دلی دور است حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ 
................BOX
بہشتی دروازہ
مشہور ہے کہ حضرت بابا صاحب کا وصال ہوا تو حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاءدہلی میں تھے، حضرت بابا صاحب نے وصیت فرمائی تھی میرا خرقہ، عصا، کھڑاویں اور تبرکات مولانا نظام الدین دہلی سے آئیں تو ان کو دے دینا اور وہی میری قبر بھی بنوائیں گے چنانچہ حضرت کو بطور امانت کے ایک جگہ دفن کر دیا اور جب حضرت سلطان المشائخ اجودھن(پاک پتن شریف) حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت کو اس جگہ دوبارہ دفن کیا جہاں آج کل مزار ہے اور اس پر ایک چھوٹا قبہ بنایا جس کے دو دروازے رکھے ایک مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف جنوبی دروازے کے پاس حضرت کھڑے تھے یکا یک ایک جوش اور وجد اور بے خودی کی حالت حضرت پر طاری ہوئی اور حضرت نے تالیاں بجا کر فرمایا لو دیکھو رسول اللہ تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو اس دروازے سے داخل ہوگا امن پائے گا“۔
خواجہ حسن نظامی
............BOX
حضرت بابا فرید کی لحد کی ایک ایک اینٹ پر قرآن پڑھوایا
آج سے آٹھ صدیاں قبل دریائے ستلج اپنی تمام ترطغیانیوں کے ساتھ حضرت شیخ العالم بابا فرید مسعود گنج شکر کے بلند ٹیلے پر موجود خانقاہ کے نیچے رواں دواں تھا۔ اس ٹیلے کی بلندی آج بھی تین منزلہ ہے۔ میری گنہگار آنکھیں چشم تصور سے مبہوت ہو کر وہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حضرت بابا جی کے وصال کے بعد حضرت محبوب الٰہی دہلی سے اجودھن تشریف لاتے ہیں اور آپ کے جسد مبارک کو خانقاہ پر پہلے سے دفن شدہ مقام سے نکال کر موجودہ مقام پر اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارتے ہیں خانقاہ درویشوں، مریدوں اور عقیدت مندوں سے بھری ہوئی ہے اور حضرت محبوب الٰہی تمام حفاظ کرام کو بٹے سے نیچے ستلج کے کنارے لے جاتے ہیں اور ان سب کو اینٹیں دے دی جاتی ہیں جو ستلج کے پانی میں دھو کر اس پر مکمل قرآن پاک پڑھتے ہیں یوں مزار مبارک کی تمام اینٹوں پر ایک ایک قرآن پاک پڑھا گیا اور یہ تمام اینٹیں حضرت محبوب الٰہی نے اپنے ہاتھوں سے اور اپنے زیر نگرانی لگوائیں یہی وجہ ہے کہ آج سے آٹھ صدیوں بعد بھی آپ کے روضہ مبارک کی توسیع نہیں کی گئی کیونکہ حضرت محبوب الٰہی کے ہاتھ سے لگائی متبرک اینٹوں پر جن پر قرآن پاک پڑھا گیا ہے۔ انہیں اکھاڑنا اور بدلنا ممکن نہیں۔
خواب میں پیارے نبی کی زیارت نظام! ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے
خواجہ حسن ثانی نظامی دہلوی
 حضرت نے اپنے وصال سے چالیس روز پہلے سے کھانا چھوڑ دیا تھا اور رونے کی یہ حالت تھی کہ ذرا سی دیر کو بھی آنسو نہ تھمتے تھے کمزوری بڑھتی رہی ایک بزرگ نے عرض کیا، حضرت اگر آپ کھانا نوش نہیں فرمائیں گے تو طاقت کیسے قائم رہے گی؟ جواب دیا کہ جو شخص جناب سرور کائنات کا مشتاق ہو اس کو دنیا کا کھانا کیسے بھائے۔ حضرت شیخ رکن الدین سہروردی اپنے وقت کے زبردست بزرگ تھے وہ مزاج پرسی کو تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ جب تک چاہیں دنیا میں رہیں آپ بھی اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچ رہا ہے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کچھ دن اور دنیا میں رکھے! حضرت یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسالت مآب فرماتے ہیں کہ نظام ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے، پس جس کا رسول اللہ انتظار فرمائیں وہ کیسے دنیا میں رہ سکتا ہے۔
 حضرت پر غشی طاری ہو جاتی تھی ہوشیار ہوتے تھے تو دریافت فرماتے تھے کوئی مہمان آیا؟ میں نے نماز پڑھ لی؟ لوگ کہتے تھے کہ سرکار نے ابھی نماز پڑھی ہے مگر حضرت دوبارہ نماز پڑھتے ہیں اس طرح ایک ایک نماز کو کئی کئی دفعہ ادا فرماتے اور کہتے
 میردیم و میردیم و میردیم
(ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں)
 اسی حال میں تمام خدمت گاروں، مریدوں اور عزیزوں کو بلا کر فرمایا کہ تم گواہ رہنا، اقبال خادم کوئی چیز جماعت خانے میں بچا کر نہ رکھے سب کچھ خیرات کر دیا جائے ورنہ قیامت کے دن حساب دینا ہوگا عرض کیا گیا کہ خواجہ اقبال نے حکم کی تعمیل کی ہے اور سب کچھ تقسیم کر دیا ہے صرف درویشوں کے لئے چند دن کے لائق غلہ باقی رکھا ہے حضرت اس پر ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ زمین کی اس ریت کو کیوں باقی رکھا ہے گوداموں کے دروازے کھول دو اور غریبوں سے کہو کہ ان کو لوٹ لیں اور کچھ باقی نہ چھوڑیں۔
18 ربیع الثانی 725ھ کو سورج نکلنے کے بعد یہ آفتاب طریقت غروب ہوگیا حضرت کی وصیت کے موافق تدفین عمل میں آئی جہاں آج کل حضرت کا روضہ ہے یہاں کسی زمانے میں جنگل میں تھا حضرت شیخ رکن الدین سہروردی نے نماز جنازہ پڑھائی کہتے ہیں حضرت نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ جنازے کے سامنے حضرت شیخ سعدی کی وہ غزل گائی جائے جس کا ایک شعر یہ ہے۔
اے تماشا گاہے عالم روئے تو
(اے کہ تیرا چہرہ(مبارک) دنیا کے دیدار کی چیز ہے تو کس کے دیدار کو چلا؟)
قوال یہ شعر گاتے جاتے تے اور بے شمار مخلوق دھاروں دھار روتی تھی۔

ای پیپر-دی نیشن