تربت میں مزید 4 پنجابی مزدور قتل
ایسی سرخی یا عنوان دینے کا جی تو نہیں چاہتا مگر کیا کریں کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تو نہیں کہ دل پر پتھر رکھا جائے۔چند روز قبل اسی علاقے میں 6 پنجابی مزدوروں کو بےدردی سے گھر گھس کر فائرنگ کرکے مارا گیا۔ ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ ایسی وارداتیں بلوچستان کے ان علاقوں میں تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ جہاں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ راقم الحروف کا اپنا تعلق چونکہ کوئٹہ سے ہے۔ اس لئے میں ایسے بہت سے واقعات و حالات کا خود مشاہدہ کرتا رہتا ہوں۔ زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ڈی جی خان ملتان یوں کہہ لیں پنجاب کےسرائیکی بیلٹ کے علاقے میں بہت سے بلوچ قبائل صدیوں سے آباد ہیں۔ پسماندگی اور غربت کی وجہ سے وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مل جل کر جاتے ہیں محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام میں اپنی مہارت کی وجہ سے محنت کی وجہ سے پسند کئے جاتے ہیں۔ یہ نہایت جفاکش اور سادہ ہوتے ہیں۔ ان کا کسی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ وسطی پنجاب سے تو کوئی کہے توہ بھی کوئی مزدور، مستری یا کاریگر بلوچستان جانے سے خوفزدہ رہتا ہے کہ وہاں پنجابیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا مرا جاتا ہے۔
1995ءکے بعد بلوچستان میں صدیوں سے آباد سیٹلرز کو جن میں پنجابی، زیادہ تھے جان بوجھ کر ڈرا دھمکا کر نکالا گیا۔ ان کو دکانیں اور گھر اونے پونے داموں فروخت کرکے جانا پڑا۔ جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے اور ان کے باپ دادا کی قبریں وہاں تھیں۔ صرف وہی بچ سکے جن کی پٹھانوں اور بلوچوں کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں۔ آج بھی دیکھ لیں پورا کوئٹہ شہر تقریباً تقریباً پنجابیوں سے ”پاک“ نظر آتا ہے۔ سارے شہر کو طنزاً ”کاکڑ کالونی“ کہا جاتا ہے۔ خود بلوچ بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں۔
اندرون بلوچستان تو شاید خال خال ہی کہیں پرانا”سیٹلر“ نظر آئے۔ ہاں محنت مزدوری کے لیے جن لوگوں کو لے کر ٹھیکیدار آتے ہیں وہ بے چارے خاموشی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ زبوں حال لوگ مل جل کر رہتے ہیں ایک ایک کمرے میں6 افراد ہوتے ہیں تاکہ خرچہ کم ہو۔ اب ایسے لوگوں کو مارنا کہاں کا انصاف ہے۔ اوپر سے ان میں اکثریت جنوبی پنجاب میں آباد بلوچ شہریوں کی ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک تو حالات اس درجہ بگڑ چکے تھے کہ راہ چلتے مسافر گاڑیوں سے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ طلب کرکے یہ دہشت گرد پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو گولیاں مار کر فرار ہو جاتے تھے۔ اگر اس وقت پنجاب والے بھی سخت ایکشن لیتے جس طرح بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اور دہشت گرد تنظیمیں لاپتہ افراد کے حوالے سے لیتی ہیں۔ دھرنے دیئے جاتے سڑکیں بند کی جاتیں۔ ریل سروس روکی جاتی اپنے علاقے سے دوسرے صوبے کے افراد کو نکالنے کا مطالبہ کیا جاتا تو شاید حساب دوستاں برابر ہونے کے خوف سے ان دہشت گردوں کی بھی گوشمالی ہوتی۔ اور متعصب جماعتیں بھی ہاتھ ہلکا رکھتیں۔ مگر رواداری کے نام پر پنجاب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
یہ تو بھلا ہو پاک آرمی کا جس نے بلوچستان کے چپے چپے پر قربانیاں دے کر عزم و ہمت کی وہ لازوال داستان رقم کی کہ آج دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر جن علاقوں میں ان کے سہولت کار موجود ہیں۔ وہاں یہ ملک دشمن انسانیت کے دشمن بے گناہ افراد کو قتل کرکے دہشت پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے باسی کب تک اپنے بے گناہ مقتولین کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے کب تک انہیں خاموش رکھا جائے گا۔ ایسا کسی دوسرے صوبے کے باشندوں کے ساتھ ہوتا تو وہ کبھی یوں آرام سے نہیں بیٹھے رہتے۔ انہوں نے وہ طوفان اٹھانا تھا کہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان دہشت گردوں کے سرپرست بوکھلا اٹھتے۔ یوں بھی سندھ کے بلوچستان سے ملحقہ علاقوں میں درجنوں بلوچ قبائل آباد ہیں جو سندھی بولتے ہیں مگر فخر سے اپنا تعلق بلوچ قومیت سے بھی جوڑتے ہیں۔ سندھی کہلاتے ہیں کبھی ان کے خلاف دہشت گردوں نے بلوچستان میں ایسا کیوں نہیں کیا۔
بلوچستان میں پہلے افغان مہاجرین اور پشتون بیلٹ میں ان قوم پرستوں نے پنجابی آباد کاروں کے خلاف ان کی بےدخلی میں اولین کردار ادا کیا۔ انہیں نسلی تعصب کا شکار بنایا۔ اس کے بعد بلوچ قوم پرستوں نے بلوچ بیلٹ میں یہی کارروائی شروع کی۔ اسکے بعد کی صورتحال آج ہمارے سامنے ہے۔ بے گناہ پنجابی مزدوروں کا لہو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اگر اسکے خلاف ریاست یا قانون نافذ کرنے والے کوئی ایکشن لیتے ہیں تو اس پر واویلا مچایا جاتا ہے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔
یہ سب باتیں دکھی اور بوجھل دل سے لکھ رہا ہوں۔ ورنہ بحیثیت قوم بلوچ ہوں یا پٹھان نہایت سادہ محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ انہیں کبھی کسی پنجابی سے سندھی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس وقت سینکڑوں پنجابی، بلوچ اور پٹھان آپس میں رشتہ دار ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، مل جل کر رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب مسلمان کلمہ گو ہیں۔ ایک جیسے انسان ہیں مگر برا ہو اس تعصب کی سیاست کا جس نے چند گمراہ لوگوں میں نفرت کا ایسا بیج بو دیا ہے جس کی وجہ سے مسلح دہشت گرد بلوچستان میں بے گناہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں اگر کوئی اختلاف ہے تو مل بیٹھ کر سیاسی ہو یا غیر سطح پر اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کا بے گناہ خون بہانے سے حالات معمول پر نہیں آ سکتے۔
ویسے بھی بلوچستان میں بلوچ اور پٹھانوں کی مشترکہ حکومت ہی کام کرتی ہے وہاں جو ترقی یا تنزلی ہوتی ہے۔ جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کے ذمہ دار یہی مقامی سیاسی جماعتیں ہیں۔اس پر قابو پانے میں ناکامی کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ عوام مطمئن ہوں۔ ترقی و تعمیر کی راہیں کھلی ہوں تو کوئی ذی شعور غلط رہ اختیار نہیں کرتا۔ جیسے جیسے تعلیم، روزگار، ترقی کی راہیں کھلیں گی، نفرت اور تعصب کی دھند خود بخود چھٹتی جائے گی۔
اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سے امید ہے کہ وہ اولین ترجیح کے طور پر وہاں قانون اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنائیں اور دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے ہر ممکن کوشش کرکے وہاں رہنے والے تمام شہریوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔
٭....٭....٭