• news

آئی ایم ایف کی ٹیم سے پہلی سہ ماہی کے مذاکرات کا آغاز

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پہلے ریویو کے مذاکرات جمعرات کے روز اسلام آباد میں شروع ہو گئے۔ یہ مذاکرات دو ہفتے تک جاری رہیں گے۔ پہلے مرحلے میں تکنیکی بات چیت اور ڈیٹا کا تبادلہ ہوگا اور دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کی گفتگو ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان رواں مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے کو اضافی فنڈنگ کی فراہمی کی تجویز دے سکتا ہے تاکہ پاکستان کو ادائیگی کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ مذاکرات کیلئے پاکستان آنیوالی آئی ایم ایف کی ٹیم کو مذاکرات کے آغاز میں وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے ٹیکس اصلاحات اور گردشی قرضے پر قابو پانے سمیت توانائی کے شعبے میں پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ مذاکرات کے دوران وزارت توانائی و پٹرولیم اور سٹیٹ بنک کی جانب سے بھی آئی ایم ایف کی ٹیم کو بریفنگ دی جائیگی اور بیرونی فنانسنگ کے اہداف میں پیش رفت سے آگاہ کیا جائیگا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب اقتصادی جائزہ مکمل ہونے پر 71 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط ملے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم ایف بی آر اور صوبائی حکومتوں سے بھی مذاکرات کریگی۔ پاکستانی حکام مذاکرات کی کامیابی کیلئے پرامید ہیں تاہم کرنسی ایکسچینج کے معاملہ میں اختلافات موجود ہیں اور آئی ایم ایف درآمدات کو کنٹرول کرنے کیلئے دسمبر 2022ءکا سرکلر واپس لینے کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔ نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر اپنی ایک تقریر میں پہلے ہی عندیہ دے چکی ہیں کہ وہ آئندہ راﺅنڈ میں آئی ایم ایف پروگرام میں اضافی فنڈ کیلئے بات چیت کرینگی۔ 
آئی ایم ایف کا قرض پروگرام پاکستان کیلئے درحقیقت وہ آکاس بیل ہے جو ہماری پوری معیشت کو شکنجے میں جکڑ چکی ہے اور ہم گزشتہ چھ دہائیوں سے اس قرضے میں جکڑے عملاً غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کا ایوب خان کے دور میں قرضے کی معمولی رقم سے آغاز ہوا تھا اور پھر ہمارے ہر حکمران نے ملک کے وسائل پر تکیہ کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کو اپنی مجبوری بنالیا۔ چونکہ یہ قرض ڈالرز میں لیا اور ادا کیا جاتا ہے‘ اس لئے پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کے نرخ بڑھنے سے واجب الادا قرض کی رقم بھی ازخود بڑھتی رہتی ہے چنانچہ آج ہم آئی ایم ایف کے ہزاروں ٹریلین ڈالرز کے قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں اور اس قرض کے عوض اسکی ہر ناروا شرط قبول کرنا بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنی مجبوری بنا رکھی ہے۔ وہ چھانٹا پکڑ کر کھڑا ہوتا ہے‘ ہم سے اپنی شرائط من و عن قبول کراتا ہے اور ہمارے حکمران ان شرائط پر عملدرآمد کا سارا بوجھ نزلہ برعضو ضعیف کے مترادف غریب و بے بس عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ 
بدقسمتی سے ہمارا ٹیکس کلچر بھی ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات کے ہاتھوں انتہائی خراب ہو چکا ہے جو خود اپنے ذمہ واجب الادا کوئی ٹیکس ادا کرنے کو ہی تیار نہیں‘ ٹیکس چوری بھی انہوں نے اپنا شعار بنا رکھا ہے اور منتخب ایوانوں میں بیٹھ کر وہ اپنی مراعات و مفادات کیلئے قانون سازی بھی کرالیتے ہیں اور ان قوانین پر عملدرآمد بھی انکے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس لئے خلق خدا کے راج کا تصور تو ہمارے ملک و معاشرے میں کبھی پنپ ہی نہیں پایا۔ بس لے دے کے غریب عوام ہی رہ گئے ہیں جو حکمران طبقات کے ہتھے چڑھتے ہیں اور وہ ان پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے انبار لگا کر اور بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کرکے عوام کیلئے ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کی کیفیت بنا دیتے ہیں۔ ہمارا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ملک اور عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں دینے کے بعد ہمارے حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف سے خلاصی پانے کیلئے کبھی کوئی تردد ہی نہیں کیا جاتا۔ 
مسلم لیگ (ن) اس امر کی داعی ہے کہ اس نے اپنے 2014ءوالے دور میں پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف سے خلاصی دلانے کی منزل حاصل کرلی تھی جو میاں نوازشریف کا اقتدار ختم کرکے کھوٹی کردی گئی۔ مگر اس اسمبلی کے باقیماندہ ڈیڑھ سال تک مسلم لیگ (ن) کی ہی حکمرانی رہی جس کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو بعدازاں اتحادیوں کی حکومت میں بھی اسی وزارت پر متمکن رہے‘ ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کی جانب ہی دھکیلتے رہے۔ 
اسی طرح 2018ءکے انتخابات کے وقت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان شدومد کے ساتھ دعوے کرتے رہے کہ ہم اقتدار میں آکر آئی ایم ایف کی جانب بڑھایا جانیوالا کشکول توڑ دیں گے اور آئی ایم ایف کے قرض پر وہ خودکشی کو ترجیح دینگے مگر تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس دعوے کی اقتدار میں آکر کس حد تک پاسداری کی۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے مذاکرات کے دروازے کھل گئے تھے۔ انکے وزیر خزانہ اسدعمر نے آئی ایم ایف کو کچھ آنکھیں دکھائیں تو انکی جگہ آئی ایم ایف کے تابع فرمان ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا جنہوں نے پاکستان کا سر جھکا کر آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کے بیل آﺅٹ پیکیج کے معاہدے پر دستخط کر دیئے اور پھر اس معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کیلئے ایک سال کے عرصے میں دو ضمنی میزانیے لائے گئے اور پی ٹی آئی حکومت کے پہلے بجٹ میں بھی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے انہیں راندہ درگاہ بنا دیا گیا۔ اسی طرح بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کے نرخوں میں بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع عوام کیلئے ناقابل برداشت اضافہ کیا جاتا رہا اور جب وزیراعظم عمران خان کیخلاف اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے مہنگائی کے جواز پر ہی عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو اسے کامیاب ہوتا دیکھ کر عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بدعہدی کرکے اسکی ناراضگی کا اہتمام کیا جس نے پہلی قسط کے بعد ہی پاکستان کیلئے اپنا قرض پروگرام معطل کر دیا اور بحالی کیلئے بعض اضافی شرائط بھی لگا دیں۔ اتحادی حکمران اپنے اقتدار کے پورے عرصے کے دوران ایڑیاں اور ناک رگڑتے ہوئے آئی ایم ایف کو خوش کرنے میں مصروف رہے اور عوام کو بے دردی کے ساتھ مہنگائی کے عفریت کے آگے پھینکتے رہے مگر آئی ایم ایف کی شکن آلود جبین پر کوئی ایک شکن بھی ختم نہ ہوئی اور اس نے پاکستان کو اگلی قسط ادا کئے بغیر ہی 30 جون کو اپنے بیل آﺅٹ پیکیج کی تکمیل کا اعلان کردیا۔ اس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے شدومد کے ساتھ یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ ہمارے پاس اپنی معیشت کو سنبھالنے کیلئے بی پلان موجود ہے اس لئے آئی ایم ایف کی جانب سے قرض بحال نہ ہوا تو بھی ہم گزارا کرلیں گے مگر ان دعوﺅں کے برعکس اتحادیوں کی حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب پاکستان کی ہزیمتوں کا سفر جاری رکھا چنانچہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے مزید ناروا شرائط کے ساتھ رواں سال 12 جولائی کو پاکستان کیلئے 9 ماہ کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت پاکستان کو ایک عشاریہ دو ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی اور ساتھ ہی یہ حکمنامہ بھی کہ اگر شرائط پر عملدرآمد نہ ہوا تو اگلی سہ ماہی جائزہ میٹنگ میں پاکستان پر مزید سخت شرائط عائد کی جائیں گی۔ 
یہ امر واقع ہے کہ موجودہ نگران سیٹ اپ آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد کیلئے ہی تشکیل پایا ہے چنانچہ نگران حکومت ایک سفاک ساہوکار بن کر عوام پر مہنگائی در مہنگائی مسلط کر رہی ہے۔ اسکے برعکس چاہیے تو یہ کہ آئی ایم ایف کے اس عبوری قرض پروگرام کو پاکستان کیلئے آخری قرض پروگرام بنایا جائے‘ مگر نگرانوں کو ملک اور عوام کے مفادات سے بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے چنانچہ آئی ایم ایف کے وفد سے شروع ہونیوالے مذاکرات کے حوالے سے بھی ملک کی معیشت اور عوام پر آئی ایم ایف کی ممکنہ نئی شرائط کی تلوار لٹکتی نظر آرہی ہے۔ نگران حکمران یقیناً یہ سب کچھ کر گزریں گے مگر ان کا مسلط کیا گیا عذاب آنیوالے منتخب حکمرانوں کو بھگتنا پڑیگا۔ حکومت جس کی بھی بنے‘ اسے عوامی اضطراب کا سامنا کرنا ہی پڑیگا۔

ای پیپر-دی نیشن