نئے جال ، پرانے کھلاڑی
استحکام پاکستان کے علیم خان نے گزشتہ دنوں استحکام پاکستان کے ایک جلسے میں اپنے اقتدار ملنے کی شرط پر غریب عوام کیلئے جس معاشی پیکچ کا اعلان کیا ہے اس نے یقینی بات ہے دیگر جماعتوں خاص طور آئندہ انتخابات میں پر امید پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو جس مشکل میں ڈالا ہوگا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، مگر علیم خان اور جہانگیرترین کو اللہ نے جس دنیاوی دولت سے مالا مال کیا ہے وہ یہ اعلان کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اگر وہ یہ سب حکومتی معاشی معاملات کو درست کرکے حکومت کی جانب سے کریں۔ ورنہ یہ سب کچھ وہ اپنے بنک اکاﺅنٹ سے ضرور کرسکتے ہیں، علیم خان تو جسطرح اپنے چینل کے کارکنوں اور وابستہ صحافیوں و دیگر اسٹاف کو نوازتے ہیں وہ از خود ایک پروپگنڈہ ہے۔ اللہ تعالی دیگر الیکٹرونک چینلز کو ایسا ہی کرنے کی توفیق دے آمین۔ ورنہ الیکٹرانک چینلزمیں پاکستان ٹیلی ویثرن نے اپنے کارکنوں کو معاشی طور پر خوشحال کیاتھا جس میں عرصہ 8 یا9 سال سے مشکل میں پھنسے پی ٹی وی کے اسٹاف کو معاشی ریلیف دیا تھا مگر پی ٹی وی کی ملازمین کی یہ خوشی زیادہ دن نہ رہ سکی اور نگراں سیٹ اپ نے سابقہ حکومت پی ٹی آئی کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مفرور شہزاد اکبرکے ملازم کردہ فرد جوپی ٹی وی کے مستقل ملازم بھی نہیں بلکہ کنٹریکٹ پر ہیں، انہیں ڈائیریکٹرنیوز جسے اہم عہدے پر تعینات کردیا جسکا نتیجہ نگرانوں کو مل گیا اورعوام نے دیکھا کہ کسطرح بقول شخصے ” باریک “ کام کرتے ہوئے وزیر اعظم کے دورہ چین کی خبروں کے ساتھ کھیلا جس پر وزیر اعظم بھی چپ نہ رہ سکے۔وزارت اطلاعات ابھی بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے اطراف میں دیکھے کہ کون چاپلوسی سے اپنے ” الو “سیدھا کررہا ہے۔؟بات چلی تھی علیم خان و استحکام پاکستان پارٹی کے انتخابی نعرہ سے۔ ایسے کئی نعرے پاکستا ن کے عوام گزشتہ ستر سال سے زائد عرصے سے دیکھ اور سن رہے ہیں، ہمارے سیاست دان اپنے ملک کی معاشی صورتحال اور ترقی یا تنزلی کی وجوہات پر کوئی علم نہیں رکھتے اور نہ ہی عالمی معاملات سے تعلق ،انہیں تو اپنا چورن بیچنا ہوتا ہے اور کئی مرتبہ ڈسے گئے عوام کم علمی ، رنگ و نسل ، گجر برادری، آرائیں برادری ، چوہدری برادری، ٹوانہ ، اور نہ جانے کن برادریوں میں تقسیم معصوم عوام تالیاں بجاتے ہوئے مختصر وقتی مراعات کے صلے میں پیچھے چل پٹرتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد کسی دوسرے شعبدہ باز کے در پر جاکر اس سے آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کی بے عملی اور کوئی نظریہ نہ ہونے کا اندازہ حال ہی میں پی ٹی آئی کے بچے کچے لیڈران کی مولانہ فضل الرحمان کے در پر حاضری تھی۔ سیاست دان اپنی دوغلی پالیسی سے شرمندہ ہونے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ “سیاست میں بات چیت سب سے ہوسکتی ہے ، “اس مفروضے کو صرف اسلئے کیوں بیان کیا جاتا ہے جب کہیں گوٹ پھنسی ہو ؟؟ قربان جائیے اس طرز تغافل پر۔ کیا فضل الرحمن کے در دولت پر حاضری کے وقت آپ جیسے جہاندیدہ کھلاڑیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا ہوں گے۔ اب تو حافظ حسین احمد نے بھی زبردست بات کہی ہے وہ ویسے بھی جے یو آئی کے ترجمانِ خوش بیان ہیں۔ کہتے ہیں اڈیالہ جیل والے نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ اب کل کے حریف ایک ہی ٹرک میں سوار نظر آئیں گے۔ ویڈیو میں مولانا تحریک انصاف کے وفد سے جس طرح ہنستے مسکراتے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقریبِ غم نہیں، جشن مسرت تھا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے ”حالات کی تفسیر تو چہروں پہ لکھی ہے“ اسد قیصر اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کے ارکان کے چہرے بجھے بجھے پر مڑدہ لگ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جسے وہ اور انکے قائد گلی گلی بدنام کرتے ان کا تمسخر اڑاتے رہے آج انہی کے دولت کدے پر انہیں آنا پڑا ہے۔ یہ وقت وقت کی بات ہے اسی لیے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ ہاتھ سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اب شاید تحریک انصاف کے کارکنوں کے جوابی ردعمل کے سبب اسد قیصر کہہ رہے ہیں کہ جے یو آئی والوں نے تصاویر اور ویڈیو جاری کر کے غلط کیا۔ پی ٹی آئی والوں کو اپنے دور اقتدار میں اقتدار میں آنے سے قبل اور اقتدار سے رخصتی کے وقت بندکمروں ، عوام سے چھپ کر ملاقاتیں کرنے کی عادت سی ہوگئی تھی اس لئے انہیں اسکی ویڈیو اچھی نہیں لگی۔ پی ٹی آئی والے پہلے تو وہ کبھی کسی مخالف پارٹی کے رہنما کے گھر کسی کی وفات پر تعزیت کرنے نہیں گئے۔ یہ اچانک تعزیتی تبدیلی کہاں سے آ گئی۔ وہ تو اپنے بھی کسی لیڈر کے جنازے میں یا تعزیت میں کبھی نہیں گئے ،ادھر سابقہ تین مرتبہ کے وزیر اعظم نواز شریف کی آمد سے ہر الیکٹرانک چینل کے علیحدہ علیحدہ مستعار لئے گئے تجزیہ کار یا HIS MASTER VOICE کے تجزیے تبصرے اور پیش گوئیاں بھی جھوٹ ثابت ہو چکی ہیں۔ اسی طرح بہت سے چورن بیچنے والوں کی دکانیں بھی بند ہو چکی ہیں۔ جب ان کے پاس کچھ نہیں بچا تو آ جا کے لیول پلینگ فیلڈ اور میچ فکسڈ و لندن پلان کا بیانیہ بنانے کی سر توڑ کو شش کی جا رہی ہے۔ دیکھا جا ئے تو پچھلے دس سالوں سے بیانیوں کی دوڑ نے ملک کو جتنا نقصا ن پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ گمراہ کن دانشوروں کے بیانئے نے ہی 9مئی کا واقع کرایا اور آج تک ڈھکے چھپے یا یوں کہا جائے کہ چارپائی کے نیچے بیٹھ کر نحیف آواز میں 9مئی کے شرمناک واقعا ت کا دفاع بھی کررہے ہیں،یہ دانشوراب مارکیٹ میں یہ بات پھینک رہے ہیں تاکہ روٹی حلال ہوسکے کہ عمران خان کے ساتھ ڈیل ہورہی ہے، انہیں باہر بھیجا جارہا ہے انکی ہمشیرہ تو مارکیٹ میں بلکل انوکھی چیز لائیں کہ ”عمران خان کو راضی کیا جارہا ہے کہ سیاست چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں مگر عمران خان راضی نہیں ہورہے۔ “انکا یہ بیان کچھ اسطرح سے میری سمجھ میں آیا ہے جسطرح استاد کلاس میں مضمون لکھنے یا تقریری مقابلے کا موضوع دیتا تھا سب اسی پر لکھیں یا بولیں۔ اسی طرح ہمشیرہ نے پی ٹی آئی کے لکھاریوں، تجزیہ کاروں کو موضوع دیا ہے کہ ”شروع ہوجاﺅ“ تاکہ مارکیٹ میں پی ٹی آئی ، اور اسکے شعبہ سوشل میڈیا (جس پر تاحال حکومت کا کنٹرول نہیں ہوسکا ) وہ اس پر کا م کرے اور اسے زبان خلق خدا کر درجہ دلایا جائے۔ بات وہیں سے شروع کرتا ہوں کہ استحکام پاکستان کے حالیہ بیانات جو انہوں نے انتخابات میں اپنی کامیابی کی شرط پر دئے ہیں وہ نہائت ہی دل خوش کن ہیں ، اس سے قبل بھی جب وہ تحریک انصاف سے وابستہ تھے ، جہانگر ترین کا طیارہ زیادہ تر فضاءمیں رہتا تھا۔ اس شہر سے اس شہر ، اسوقت بھی انکی سابقہ جماعت نے ایک کروڑ گھر، نوکریاں، نہ جانے کیا کیا وعدے کئے تھے۔
منشور کے روح رواں لوگوں میں انکی رائے بھی ضرور رہی ہوگی ، اب اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے علیم خان نے بھی مراعات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور بجلی سمیت تمام مراعات کا جائزہ لیاجائے تو یہ دیوانے کا خواب نظر آتا ہے ، ہاں اگر وہ ایمانداری سے یہ اعلان کریں کہ حکومتی شاہ خرچیاں بند کردی جائینگی ، اربوں روپے پینشن جو مراعات یافتہ اشرافیہ کو دی جاتی ہیں ہمیشہ وہ بند کی جائینگی ، پروٹوکول کی عیاشیاں بند ہونگی، یقینی طور پر ان اقدامات سے مہنگائی کم ہوگی۔ معیشت کی درست ہوگی ، IMF نے قرض دیتے وقت انہی معاملات کی نشاندہی کی تھی ، استحکا م پاکستان جماعت پنجاب میں کچھ نشستوں کیلئے پر امید ہے۔ چونکہ اسکے پاس جہانگر ترین کے طیارے کے مسافر موجود ہیں،جو چاہے جماعت اسلامی ہو، یا کوئی اور جماعت سب جگہ فٹ ہونے کی ”صلاحیت “رکھتے ہیں۔