غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی
حکومت کی طرف سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو دی گئی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر کو ختم ہو گئی ہے جس کے بعد اب حکومت پاکستان نے ان افراد کی بے دخلی کیلئے ملک گیر آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فارن ایکٹ 1946 کے تحت تمام صوبوں کو غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی بے دخلی کاحکم نامہ جاری کردیا ہے۔ اس حکم نامہ کے مطابق ملک میں مقیم تمام غیرقانونی تارکین وطن کو بے دخل کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد کوئی پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن کو پناہ دینے میں ملوث پایاگیا تو اس کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بے دخلی کے اس منصوبے کا اطلاق پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں پر ہو گا اور اس سلسلے میں کسی بھی ملک یا شہریت کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باہمی تعاون سے ایک بھرپور پلان کے تحت میپنگ اور جیو فینسنگ کے ذریعے غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی نشاندہی کا عمل بھی تقریباً مکمل کرلیا ہے جس کی روشنی میں اب قانون حرکت میں آئے گا اور ان افراد کو ملک سے نکالا جائے گا۔
ستمبر کے اواخر میں جب حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کو بے دخل کیا جائے گا تو مجموعی طور پر حکومت کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہارکیاگیا تھا۔ یہ مطالبہ تو مختلف حلقوں کی طرف سے کیا جا تا رہا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طو پر مقیم تمام غیرملکیوں کو اپنے ممالک میں واپس بھیجنا چاہیے مگر مطلوبہ فیصلہ سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوںکا خیال تھا کہ اس مرتبہ بھی حکومت دباﺅکی وجہ سے یاتو اپنا یہ فیصلہ فی الحال واپس لینے پرمجبور ہو جائے گی یا پھر ڈیڈ لائن جو کہ 31 اکتوبر دی گئی تھی اس میں توسیع کر دی جائے گی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے سیاسی مفادات کی وجہ سے حکومت کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے گذشتہ چار دہائیوں کے دوران 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی ہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھانا پڑاہے۔ ہماری سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان افغان مہاجرین جس میں سے ایک بڑی تعداد غیرقانونی طور پر یہاں مقیم تھی جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم اس مہمان نوازی کا بہت خمیازہ بھگتا ہے مگر افغانستان کی تمام حکومتوں جس میں طالبان کی موجودہ حکومت بھی شامل ہے اور افغان عوام نے مجموعی طور پر ہماری مہمان نوازی کا کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا بلکہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور غلط پراپیگنڈہ بھی کیا ہے۔
احسان فراموشی کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ ان غیرملکی افغان شہریوں میں سے کچھ لوگ ہمارے ملک میں غیرقانونی سرگرمیوں میں براہ راست ملوث پائے گئے ہیں جن میں سمگلنگ‘ دہشت گردی اور دوسرے سنگین جرائم شامل ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ اور کیا آپشن ہو سکتا تھاکہ ان غیرقانونی تارکین وطن کو یہاں سے بے دخل کیا جائے۔ دنیا کا کوئی ملک اپنے ہاں اس طرح کے افراد کو اتنے لمبے عرصے تک مقیم نہیں رہنے دے سکتا بحیثیت ایک آزاد اور خودمختار ملک کے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے ملکی مفاد کے مطابق فیصلے کریں اور یہی اب کیا گیا ہے۔
ملک دشمن قوتیں اس سارے عمل کو سبوتاڑ کرنے کیلئے متحرک ہو چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ افغان باشندوں کے لئے قائم شدہ کیمپوں یا ان افراد کی نقل و حرکت کے دوران شرانگیزی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مذموم عناصر کو ایسی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کا کہا گیا ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کو افغان باشندوں کے ساتھ زور زبردستی کرتے ہوئے دکھایا جائے۔ عورتوں اور بچوں کو بالخصوص ان تصاویر اور ویڈیوز میں شامل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ اسے پاکستان کے خلاف اچھی طرح پراپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا جاس کے۔ اس سلسلے میں چمن اور سپن بولدک کے علاقے میں تشدد اوراحتجاجی مظاہروں سے انتشار پھیلانے ک منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ اس مذموم اور گھناﺅنے منصوبے کا مقصد ملک دشمن عناصر کی طرف سے انتشارپھیلا کر پرامن طریقے سے چلنے والے افغان باشندوں کے انخلا کے عمل کو سبوتاژ کرکے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو بڑھانا ہے۔ حکومت پاکستان نے غیر ملکیوں کے انخلا کے اس عمل کو بہترین بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کئے ہیں تاکہ کسی کو بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ غیرملکی تارکین وطن کو بے دخل کرنا ہمارا حق اور وسیع تر قومی مفاد میں ہے جس کو اب ہر حالت میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانا بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا سمیت ہر طبقہ فکر کو اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔