پیر‘ 21 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 6 نومبر 2023ئ
مولانا فضل الرحمن فلسطینیوں کی مدد کیلئے غزہ روانہ
اب خدا معلوم حضرت وہاں گئے کیسے ہیں۔ جہاز سے‘ ٹرک پہ یاکشتی میں۔ اور کس ملک کے راستے۔ان سوالوں کا جواب جے یو آئی والے ہی دے سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی مدد وہ کس طرح کریں گے؟ کیاوہ پاکستان سے اسلحہ، خوراک یا طبی امداد لے کر غزہ گئے ہیں یا صرف دعاﺅںکا ذخیرہ لے کرروانہ ہوئے ہیں۔ جو ہر نماز جمعہ کے بعد اور احتجاجی ریلیوں میں ہمارے مقررین و خطیب نہایت پر سوز لہجے میں کرتے ہیں کہ یا رب فلسطین کو آزاد اور اسرائیل کو نیست و نابود فرما۔ مگر وہی نوابزادہ نصراللہ خان کا شعر یاد آتا ہے
کیا اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
اور کوئی بلاصرف دعاو¿ں سے ٹلی ہے
جتنا زور ہم دعاﺅں میں لگاتے ہیں اگر اس سے آدھا زور پورا عالم اسلام مل کر اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر لگائے تو مسئلہ فلسطین ہی نہیں مسئلہ کشمیر سمیت مسلم امہ کے تمام مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب جے یو آئی کے ترجمان کے مطابق مولانا فضل الرحمن کراچی میں ریلی کے بعد ادویات اور خوراک کا ایک ذخیرہ لے کر غزہ خاموشی سے روانہ ہو گئے ہیں تاکہ وہاں کے مظلوم تباہ حال شہریوں کی مدد کریں۔ بعض حاسدین کو شبہ ہے کہ اس وقت رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع بھی ہو رہا ہے کہیں مولانا وہاں نہ گئے ہوں اور ان کے محبین نے ان کی روانگی کو غزہ سے جوڑ لیا ہو۔ اب سچ کیا ہے خدا جانے مگر ایک بات ہے کہ وہ پہلے سیاسی رہنما ہوں گے جو غزہ پہنچیں گے۔ شرط یہ ہے کہ انہیں غزہ داخل ہونے دیا گیا۔ اب جماعت اسلامی کے سراج الحق کو بھی فی الفور کوئی تدبیر اپنانی ہو گی کیونکہ وہ کشمیر ہو یا فلسطین افغانستان ہو یا برما کے حوالے سے جماعت کی پالیسیوں کے مطابق بھرپور سماں باندھتے ہیں اور امداد اکٹھی کرتے ہیں اب وہ بھی خوراک و ادویات کے ذخیرے لے کر روانہ ہو سکتے ہیں جب مولانا جا سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں جا سکتے۔ یا پھر وہ بھی جانتے ہیں کہ مولانا کو علم ہے الیکشن آ رہے ہیں تو وہ اپنے کو غازی غزہ بنا کر ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ سوانگ رچا رہے ہوں۔
٭٭٭٭٭
کپتان کو جیل میں زہر دینے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں: ڈاکٹر
یہ کوئی عام سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کی بات نہیں ، یہ بات پی ٹی آئی کے چیئرمین کے اپنے ہسپتال شوکت خانم ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر کا بیان ہے جو انہوں نے اخبار اور ٹی وی والوں کے روبرو خان سے ملاقات کے بعد دیا۔ انہوں نے واضح کیا انہیں ”سلوپوائزنگ“ کی باتیں جھوٹی ہیں۔ کپتان کی طبیعت اور صحت بالکل ٹھیک ہے۔ ان کی صحت کیسے ٹھیک نہ ہو۔ عدالت کی مہربانیوں سے انہیں بہترین کھانا پینا ، ورزش و چہل قدمی کےلئے وسیع جگہ اور مطالعے کے لیے اخبارات ، ٹی وی اور ادویات سمیت ہر طرح کی سہولت دستیاب ہے۔ ایسی سہولتوں کا نواز شریف جیل میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، جب وہ رونق زندان بنے تھے ورنہ چند دن گزار ہی لیتے۔ خان کے وکلا البتہ نجانے کیوں ہر ملاقات کے بعد ان کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں کر کے عوام کو وسوسوں میں ڈالتے ہیں۔ اب تو انہیں گھر سے کھانے منگوانے کی بھی اجازت ہے۔ بیگم سے بھی وہ علیحدہ ملاقات کر سکتے ہیں۔ ویسے یہ سہولت آصف زرداری کو بھی حاصل تھی۔ ہمہ وقت ایک مشتقی، 6 عدد ڈاکٹرز 3 عدد نرسز (میل) تو بڑے بڑے امرا کو گھر میں دستیاب نہیں۔ پھر دیسی گھی میں پکے دیسی مرغ اور مٹن تو اچھا بھلا آدمی بھی ہضم نہیں کر سکتا۔ ان کے جیل کے کمرہ اب ایک وی آئی پی اپارٹمنٹ بن چکا ہے۔ پھر بھی د عا یہی ہے کہ خدا ایسا وقت کسی پر نہ لائے۔ کل تک جو دوسروں کو جیل میں ڈالنے کے دعوے کر رہے تھے۔ایک کو تو اپنا پہلا شکار یا نشانہ کہتے تھے۔ آج کل ان کا ذکر بھی محبت سے ہو رہا ہے۔ خدا جانے سچ کیا ہے۔ مگر ہماری سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اتحاد نہ سہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہی سہی۔
٭٭٭٭٭
ٹی وی ڈراموں میں خواتین پر تشدد کے واقعات دکھانے کا غلط رحجان
پہلے صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا۔ اس لیے اس پر کڑی نگاہ رہتی تھی۔ سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے خبروں کے ساتھ ڈراموں پر بھی اس کی کڑی پالیسیاں عائد ہوتی تھیں۔ اس وقت لوگ بھی سادہ تھے اور لکھنے والے بھی حدود و قیود کے پابند ہوتے تھے۔ اس لیے خواتین سے ہونے والی تمام زیادتیوں کے خلاف موثر ترین آواز بلند کرنے کے باوجود ، جس میں پی ٹی وی کامیاب بھی رہا، خواتین کے بارے میں عامیانہ زبان استعمال کرنے یا سکرین پر خواتین کے ساتھ ناروا سلوک جسمانی تشدد حتیٰ کہ تھپڑ مارنے کی قبیح حرکت بھی دکھائی نہیں جا سکتی تھی۔ بے حد ضروری سین میں بھی ماں یا باپ ہی اپنی بیٹی کو ایک عدد ”جھانپڑ“ رسید کرتے نظر آتے تھے وہ بھی بہت ہی کم۔ جب موجودہ دور کا آغاز ہوا۔ آہستہ آہستہ ٹی وی چینلز برساتی کھمبیوں کی طرح ا±گنے لگے۔ یہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ڈراموں میں کچھ زیادہ ہی زبان درازی اور تھپڑ بازی دکھانے لگے۔ چند سال قبل ایک ڈرامے میں ہیروین کو ” ایک معمولی سی عورت“ کہنے پر خواتین نے احتجاج کیا تو ڈرامہ لکھنے والے سنبھل گئے۔ مگر اب تو توبہ ، توبہ کانوں کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا ہے۔ ماں بہن ، بیٹی، بھابی ، خالہ ، سالی، پھپھو، ساس ، بہو جیسے رشتوں کا تقدس بری طرح پامال ہو رہا ہے۔ ڈرامہ نگار اپنی نفسیاتی ، جسمانی اور گھریلو زندگی کے مسائل پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اب گزشتہ کچھ عرصہ سے خواتین پر ہاتھ اٹھانے کے مناظر بھی جس طرح دکھائے جا رہے ہیں اسے دیکھ کر تو لگتا ہے نجی چینلوں پر تھپڑ بازی کا کوئی مقابلہ چل رہا اور سب چینلز اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر خواتین کو طمانچے مارنے والے سین کیا بہت ضروری ہیں۔ اتنا تو عام گھروں میں نہیں ہوتا، جتنا مقابلہ تھپڑ ہمارے ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک غلط روش ہے اس پر بہرحال قابو پانا ضروری ہے۔ محکمہ اطلاعات و نشریات ہی اب اپنا کردار ا دا کرے تو زیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭
فخر زمان اور بارش نے پاکستان کو جیتوا دیا
اب تو ماننا پڑے گا کہ مقدر کی عظیم گرفت کس طرح ہماری زندگیوں پر ہمارے فیصلوں پر ہماری کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ان دیکھے طریقے سے ہوتا ہے۔گزشتہ روز بنگلور میں پاکستان کرکٹ ٹیم ایک بار پھر یکدم اچانک چارج ہو گئی۔ یوں لگا جیسے بھولے ہوئے کھلاڑیوں کو ایک بار پھر کسی نے کھیلنا یاد کرا دیا ہے۔ کرکٹ ٹیم کے زائچہ میں کھلاڑیوں کی تربیت بدلنے سے یوں لگا جیسے مشکلات کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ راہو اور کیتو کے پہلے خانے سے چلے جانے اور وہاں شیرنی اور شکر کے پدھارنے سے ر±ت ہی بدل گئی۔ نئی جوڑی میں سے فخر نے تو کمال کر دیا۔ 126 رنز کی شاندار اننگ کھیلی ، ورنہ 400 رنز بنا کر تو واقعی نیوزی لینڈ نے اپنی جیت کا بھرپور انتظام کر لیا تھا۔ اس پر تو پاکستانی قوم کی ٹوٹتی امیدوں پر مزید پانی پھرنے لگا تھا۔ مگر بادلوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ میچ میں اپنی انٹری ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ابر کرم پورے میچ پر چھا گیا۔ رم جھم رم جھم نے ایسا سماں باندھا کہ میچ روکنا پڑا۔ اور بارش کی برستی بوندوں کی مدھر تانوں پر بجتے سرمدی ساز چار سو بجنے لگے۔ بالآخر جب بادلوں کی مداخلت زیادہ بڑی تو کرکٹ قوانین کے تحت پاکستان کی جارحانہ اننگز کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی جیت کا اعلان کر دیا گیا۔ یوں اب پھر سیمی فائنل تک رسائی کا وہ خواب جو چکنا چور ہو چکا تھا ایک بار پھر امیدوں کے نہاں خانے میں بیدار ہونے لگا ہے۔ اگر پاکستان اپنا اگلا میچ جو انگلینڈ کے ساتھ ہے اسی جذبے سے کھیلتا ہوئے جیت لیتا ہے تو پھر رن ریٹ اور پوائنٹس کا حساب کتاب پاکستان کو سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل کر سکتا ہے ورنہ فی الحال تو ہم سارا گاﺅں بھی مر جائے تو چودھری بننے کی دوڑ میں شامل نہیں۔