• news

الیکشن کا بگل بج گیا

ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات کا اعلان ہونے سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی ہے کہ ’خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘ والی صورتحال ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی اور بے یقینی کی صورتحال میں عوام کو الیکشن میں اس لیے امید کی کرن نظر آ نے لگی ہے کہ انھیں اپنے ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ یہ اور بات کہ ووٹ کو عزت اور اہمیت دینے کا بیانیہ اب پس پشت جلا گیا ہے۔ اب جبکہ ملک میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے ڈیرے پھر سے آ باد ہو رہے ہیں۔ کئی سیاسی پرندے ایک شجر سے دوسرے شجر پر جاتے اور منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ نظریات اور اصولوں کو اہمیت دی جاتی تھی اور سیاست دان اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ اصولوں کی خاطر جان تک کی قربانی سے بھی پرہیز نہیں کرتے تھے، اب معاشرے میں مصالحت اور مفاہمت کا چلن عام ہے۔ قومی اور اجتماعی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح اور اہمیت ملتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب صرف نظریہ¿ ضرورت ہی باقی بچا ہے۔ اقتدار میں آ کر سیاست دان بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ووٹ کی طاقت سے اقتدار کی طاقت میں آ کر اپنے ووٹر اور اپنے حلقے تک کو بھول جاتے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد شکاری پھر سے شکار کی تلاش میں نئے جال کے ساتھ نکلتے ہیں۔ اپنی پٹاری میں نئے خواب اور نئے وعدے لے کر عوام کو پھر سے سبز خواب دکھاتے ہیں اور بیچارے بھولے بھالے عوام ایک بار پھر سے ان سنہرے وعدوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کے مصداق شکوہ کناں ہی رہتے ہیں، حلقوں کے مسائل حل طلب ہی رہتے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں اور عوام کی حالت بدلنے کی بجائے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اپنے حالات بدلتے رہتے ہیں۔
 اب جبکہ الیکشن کی منادی کو چکی ہے، نگران حکومت کو بھی اپنی اداو¿ں پر غور کرنا ہوگا، پروٹوکول کلچر سے نکلنا ہوگا اور غیر جانبداری کے ساتھ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو بھی متنازعہ ادارہ بننے کا تاثر ختم کرنا ہوگا کسی کی پسند ناپسند کے مطابق انتظامی تبادلوں سے گریز کرنا ہوگا اور ملک میں شفاف انتخابات کرانا ہوں گے جو سب کے لیے قبولیت کا درجہ رکھیں اور کسی جماعت کو دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع نہ ملے۔ بصورت دیگر ’وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘ کی صورت درپیش رہے گی۔ اپوزیشن حکومت کو نہیں چلنے دے گی اور حکومت عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے گی۔ عوام اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں بہت تنگ ہیں، پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافہ ہوتا ہے جس کے اثرات عوام پر براہ راست ہوتے ہیں اور کمی کا کوئی اثر نہیں ہوتا کہ بڑھائی گئی نہ تو قیمتیں کم ہوتی ہیں نہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی لائی جاتی ہے اور عوام اس کمی کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
حکومت پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر عوامی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے، عوامی توقعات کو پورا کرے اور اپوزیشن کے ساتھ ہم آہنگی کی فضا بنا کر اپنی مدت اقتدار کو پورا کرے یہ ملک نئے نئے سانحات اور مسائل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، سفارش اور رشوت کا چلن عام ہونے کی وجہ سے کرپشن کا گراف بہت اونچا پہنچ گیا ہے اور نوبت ہزاروں لاکھوں سے اربوں کی کرپشن تک پہنچ گئی ہے۔ اشرافیہ آزاد سے آزاد تر ہوتی جارہی ہے اور عام آ دمی کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ملکی میڈیا مصلحت، لالچ اور حکومتی دباو¿ کی وجہ سے حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کر رہا ہے۔ ایسے میں سیاسی منظر نامہ بھی دھندلا کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے یقینی پھیلتی جا رہی ہے۔ ایسے میں الیکشن کے انعقاد کے اعلان کو امید کی ایک کرن بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
عدالت عالیہ نے بھی الیکشن کے بروقت انعقاد کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو پابند کرتے ہوئے کسی بھی اگر مگر سے اجتناب کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ عدالتی فیصلوں پر ہر صورت عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ ماضی میں عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے ملکی اداروں کی سبکی ہوئی۔ ملک کے تمام موجودہ مسائل کا ممکنہ حل آزادانہ اور شفاف انتخابات میں ہی مضمر ہے۔ تمام اداروں کو اپنی حدود اور آئینی دائرہ¿ کار میں رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ زبانِ خلق کو نقارہ¿ خدا سمجھنے سے ہی ملک میں درپیش مسائل کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے معاملات میں بہتری اور تبدیلی لائیں۔ سیاست میں مطلق العنانیت اور وراثت کی بجائے کارکنوں کو اہمیت دیں۔ اپنی جماعتوں میں الیکشن کرائیں اور ووٹ کی اہمیت اور عزت کے بیانیے کو تمام مفادات ہر فوقیت دیں بصورت دیگر معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی رہیں گے کہ دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گے اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے۔ 
الیکشن کمیشن بھی اس بار شیڈول جاری کرتے ہوے ضابطہ¿ اخلاق اور قواعد و ضوابط پر پوری طرح عمل کرائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ سب کو جلسوں کی اجازت ہو اور عوامی مینڈیٹ کا پورا پورا احترام کیا جائے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بھی ضابطہ¿ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تا کہ خالص ووٹ کی طاقت سے تشکیل پانے والی حکومت عوامی خواہشات اور امنگوں کی ترجمان بن سکے اور ملک میں جمہوریت ہر قسم کے دباو سے آزاد ہو کے پھلتی پھولتی رہے۔

ای پیپر-دی نیشن