اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے؟
ان دنوں ہندوستان کو چین کے ہاتھوں تازہ تازہ شکست ہوئی تھی۔ ایک پاکستانی اخبار نویس ہندوستانی دورے پر تھا۔ ملاقات پر اس نے انڈین وزیر اعظم پنڈت نہرو سے پاکستانیوں کیلئے کوئی پیغام پوچھا۔ نہرو نے کہا۔ واہگہ کے اس جانب رہنے والے میرے بھائیوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں۔ چین کے ہاتھوں ہماری شکست پر خوشیاں نہ منائیں۔ ہمارا تمہارا مرنا جینا ، موسم ، ریت رواج ، اٹھنا بیٹھنا سب ایک ہےں۔ جو کچھ واہگہ کے اس طرف ہوگا ، واہگہ کے اس پار ہو کر رہے گا۔ کالم نگار کو ان دنوں چلنے پھرنے میں بھی آسانی نہیں رہی۔ صحت کے بھلے دنوں میں انڈیا سیر و سیاحت کیلئے جانے کا پروگرام بنتا رہا۔ بوجوہ ملتوی ہوتا رہا۔ اپنی آنکھ سے انڈیا نہیں دیکھ سکا۔ انڈیا صرف ڈاکٹر محمد اجمل خاں نیازی کے سفر نامہ ”منظر میں محراب “اور ممتا ز مفتی کی ”ہندیاترا“میں ہی دیکھا۔ اجمل نیازی کے کتاب انیسویں صدی کی آخری دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پھر ایسی شاندار تخلیقی سرگرمی کے لئے ذہنی فرصت ہی میسر نہ آسکی۔ ممتاز مفتی کی کتاب بھی اپنے رنگ ڈھنگ میں بہت اچھی ہے۔ سفر نامہ کسی مصنف کے مشاہدے اور اس ملک کے حالات کا خبر نامہ ہوتا ہے۔ دونوں رائٹروں کا اپنا اپنا مشاہدہ ہے۔
چھوت چھات کے قائل ہندو سمٹ سمٹا کر اپنی دھرتی میں رہنے والی قوم تھی۔ انہوں نے ہم سے انصاف اور رواداری کا اعلیٰ درس کیا لینا تھا۔ ہم نے ان سے بہت اثرات لئے۔نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہندو مذہب بد ل کر مسلمان ہو گئے لیکن وہ اپنی طرز معاشرت ہی ساتھ ہی لیتے آئے۔ مسلمانوں کا تصوف ہندو مت سے بہت متاثر ہواجس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ جہلم جی ٹی روڈ کے ایک جانب ہندوﺅں کے قدیم ٹلہ جوگیا ں کے ویران کھنڈرات موجود ہیں۔ ٹلہ جوگیاں قیام پاکستان تک آباد رہا۔ ہم آج اکیسویں صدی میں اس کی دوسری جانب تصوف کی جدید درسگارہ بنا رہے ہیں۔ ایوب خاں تک ہم انڈیا سے پیچھے نہیں تھے۔ ہماری کرنسی انڈیا کی نسبت جاندار تھی۔ نہرو جنگ آزادی کا کماندار تھاتو ہمارے صدر ایوب خاں بھی فوجی وردی میں اس سے کم باوقار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ پھر سقوط ڈھاکہ پر نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی فاتحانہ للکار سنائی دی۔ ہم نے دو قومی نظریہ کو بحیرہ عرب میں پھینک دیا ہے۔ پھر ہم پیچھے رہ گئے ، بہت ہی پیچھے۔
پچھلے دنوں نیلم احمد بشیر کی 2011ءمیں شائع شدہ کتاب ”چار چاند“ہاتھ آئی۔ اس کتاب میں نیلم نے پچاس صفحوں پر مشتمل اپنا 2004ءمیں کیا ہوا ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا ہے۔ اس سفر نامہ سے کچھ اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔ ”ایک روز میں نے چائے میں دودھ ڈالتے ہوئے مدھو (ہندوستانی میزبان) سے حیران ہو کر کہا۔ ”یہاں کا دودھ بہت اچھا ہے۔ کیا بات ہے۔آپ کا دودھ والا پانی کم ڈالتا ہے“ مدھو نے بیوقوفوں کی طرح میرا منہ دیکھ کر کہا پانی ؟ وہ بھلا پانی کیوں ڈالنے لگا“؟ اپنے سوال کا یہ جواب سن کر میں پانی پانی ہو گئی۔
”میں نے دہلی میں اندرا گاندھی کا کمرہ شب خوابی دیکھاتھا تو حیران ہو گئی تھی۔ ایک عام سی میز کرسی ، الماری اور ایک بستر۔ نہ کوئی اچھا جھاڑ ، نہ فانوس ، نہ قیمتی ڈیکوریشن آئٹمز ، نہ نوادرات۔ بس ایک کمرہ تھا جس میں وہ رہ لیتی تھی۔ اور دیکھا جائے تو رین بسیرے کیلئے اس سے زیادہ اور چاہئے بھی کیا ہے ؟انسان شب بھر کا مسافر ہی تو ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا موج میلہ دیکھ کر تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بینظیر صاحبہ نے جب تخت چھوڑا تو ایک دن یہ دکھی بیان دیا کہ میرے بچے اپنے بڑے سے خوبصورت گھر یعنی پرائم منسٹر ہاﺅس کو بہت یاد کرتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پیاری امی ہم اپنے راج محل میں کب لوٹیں گے؟ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ایک نہ ایک دن انہیں وہاں واپس ضرور لے جاﺅنگی“۔
”نوازشریف صاحب پرائم منسٹر ہاﺅس میں شہزادوں کی طرح تیتر بٹیر کا شکار کھیلتے، کھانے کھابے کھاتے رہتے ہیں۔ پرائیویٹ جہاز، لاڈ پیار ، نا ز نخرے ، اقرباپروری سے ان کا پیٹ کبھی نہ بھرااور وہ بھوکے ہی رہے “۔
”ایک بات جو ممبئی کے بعد میں دلی میں بھی نوٹ کر رہی تھی یہ تھی کہ سڑکوں پر بھکاری نظر نہیں آرہے تھے۔گلی محلے بازار سڑکیں انکے بغیر سونی نظر آرہی تھیں۔ ہمیں تو اپنے پاکستان میں بھکاریوں کے حملوں کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ انکے بغیر گھر سے باہر ہر جگہ عجیب سی لگتی ہے۔ میں نے ایک روز آتم سے پوچھا۔ ”میاں فقیر نظر نہیں آرہے“۔ آتم نے جواب دیا ”وہ صرف مسلم ایریاز میں ہوتے ہیں“۔ یہ سن کر میں پانی پانی ہو گئی اور کیا پوچھتی ؟“۔ آتم نے یہ بھی بتایا کہ انڈین سرکار نے بھیک مانگنا قانوناً جرم قرار دے دیا ہے۔ اس لئے اگر کوئی بھکاری نظر آجائے تو پولیس اسے پکڑ کر لے جاتی ہے۔ ”ہائے !انڈین لوگوں کو کتنا آرام ہے“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ آرام سے باہر جا سکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ سکھ مذہب میں بھی بھیک مانگنے کو قطعی طور پر نا پسند کیا جاتا ہے۔ انہیں اپنے ہاتھ سے کمانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ”سردیوں کا موسم تھا مگر سڑکوں پرپھرتے مجھے لنڈے کے کپڑوں کی ریڑھیاں نظرنہیں آرہی تھیں۔ میں نے ان کی بات آتم کے بیٹے آیو سے پوچھا تو وہ کہنے لگا۔ ”یہاں پرانے کپڑے نہیں بکتے۔ ہم انہیں کیوں امپورٹ کریں؟جبکہ ہمارے ہاں لدھیانہ میں اتنا کپڑا بنتا ہے کہ ہم خود کو پہنانے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ ہمیں سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی ضرورت ہی نہیں“۔
”میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں دن دیہاڑے ڈاکوگھروں میں گھس آتے ہیں تو ایک انڈین نے بڑے بھولپن سے کہا۔ ڈاکو تو صرف گاﺅں میں آتے ہیں۔ فلموں میں ہم نے یہی دیکھا ہے۔ یہ سن کر مجھے ایک بار پھر حسد محسوس ہوا کیونکہ میں پہلے بھی سن چکی تھی کہ انڈیا میں بڑے شہروں میں دن دیہاڑے ڈاکو پروگرام نہیں ہوتے۔ یہ وہاں کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے “۔
پنڈت نہرو ایک دانشور تھے۔ ان کی بات سچ ہے کہ جو کچھ واہگہ کے اس طرف ہوگا دوسری طرف ہو کر رہے گا۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ ہر مقررہ وقت پر الیکشن ہو تے رہیں۔ ہندوستان میں 76برسوں میں ایک بھی الیکشن ملتوی نہیں ہوا۔ ادھر صورت احوال یوں ہے کہ ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فرما رہے ہیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا۔جو پتھر پر لکیر ہوگا۔ لیکن لوگ ہیں کہ یقین ہی نہیں کر رہے۔
اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے؟