ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی اےم اےف) کے درمےان ہونے والے رےوےو کے مذاکرات میں پاور سےکٹر کے سرکلر ڈےٹ کو کم کرنے کے بارے مےں حکومت کے پلان پر بات چےت ہوئی۔ بجلی اور گےس سرکلر قرضوں مےں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر عالمی ادارے نے اطمےنان کا اظہار کےا۔ حکومت کی طرف سے آئی اےم اےف کو بتاےا گےا کہ بجلی کے شعبے مےں تمام اےڈجسٹمنٹ وقت پر کی گئےں اور گےس مےں قےمت پر نظرثانی کا عمل بھی مکمل کر لےا گےا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے مذاکرات کے دوران آئندہ 10 ماہ کا ٹیکس پلان مانگ لیا۔ مذاکرات میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 49 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑکرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا۔ مذاکرات کے دوران ٹیکس نیٹ میں شامل 10 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کی تفصیلات آئی ایم ایف کو فراہم کر دی گئی ہیں۔ معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ کاروباری لین دین اور بنکوں سے مزید 10لاکھ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرکے نوٹس بھجوائے جارہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں بڑے ٹیکس نادہندگان کے شناختی کارڈز بھی بلاک کیے جا سکتے ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہر بار بڑے نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا عزم تو ظاہر کیا جاتا ہے مگر اس پر عمل درآمد آج تک نہیں کیا جا سکا۔ آئی ایم ایف خود بارہا کہہ چکا ہے کہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور مہنگائی کا بوجھ عام آدمی کے بجائے ان کی طرف منتقل کیا جائے مگر حکمران طبقات اس طرف کان نہیں دھرتے بلکہ سارا بوجھ ہمیشہ ایک عام آدمی پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں حکمران طبقات کی مراعات ختم کرنے کے اعلانات تو کیے جاتے رہے مگر ان پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری عہدہ چھوڑنے کے باوجود انھیں کسی نہ کسی صورت میں مراعات ملتی رہتی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار ادا کر رہا ہے، تنخواہ دینے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ جب تک ٹیکس نیٹ کا دائرہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے تک نہیں بڑھایا جاتا، شناختی کارڈ بلاک کرنے کے بجائے، ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، ٹیکس اہداف پورے کرنا ممکن نہیں۔ روززافزوں مہنگائی نے عام آدمی کو مفلسی کی آخری حد کی طرف دھکیل دیا ہے۔ آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس لیے اقتصادی ٹیم کو آئی ایم ایف کی ہر شرط پر سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہیے، اسے عام آدمی کی حالت زار کے بارے میں بھی بتایا جانا چاہیے۔ اگر ہم اس کے ہر فرمان پر من و عن عمل درآمد کرتے رہے تو وہ اسی طرح اپنی کڑی شرائط منوانے کے لیے ہمیں یرغمال بنائے رکھے گا۔