تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے: پرویز اشرف
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کے سپیکر راجا پرویز اشرف نے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کے مسائل کو اٹھانے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا۔ انہوں نے ماضی کے مسائل کو بار بار اٹھانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے کہا کہ جب یہ مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت سب خاموش رہتے ہیں، یہ بزدلی کی نشانی ہے، ایک زندہ قوم کسی غلط عمل پر اس وقت آواز اٹھاتی ہے جب اس کا ارتکاب کیا جا رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں پانچ سال بعد مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور جو لوگ پہلے کچھ اور کہتے ہیں، وہ اپنا بیانیہ بدل لیتے ہیں۔ فوج کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ عوامی سطح یا سوشل میڈیا پر اٹھانے کے بجائے اسے اندرون خانہ بند دروازوں کے پیچھے حل کیا جانا چاہیے، اس سب کا فائدہ صرف ملک دشمنوں کو ہوا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہمیں اس کے نتائج کو دیکھنا ہوگا۔ 75 سے 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے پاو¿ں پر کھڑے نہیں ہو سکے۔ اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ماضی میں ہی چلتے رہیں یا مستقبل بھی کوئی چیز ہے جس میں ہم نے قدم رکھنا ہے۔ حال اور مستقبل میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ میں اب بھی سوچتا ہوں اور میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔ جب راجا پرویز اشرف سے پوچھا گیا کہ کیا سابق فوجی اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے مطالبات مناسب ہیں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پھر آپ اس کے بارے میں باتیں کرتے رہیں اور آپ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے، یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے جہاں ہر دو یا تین سال بعد آپ ماضی کے مسائل اٹھاتے ہیں، جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ مستقبل پر نظریں مرکوز رکھتی ہیں۔ عارف علوی کا عہدہ پاکستان کا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ ہے، کون سی مجبوریاں تھیں کہ یہ تاثر ابھرا کہ وہ صدر علوی منصب صدارت سے زیادہ پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں؟۔ یہ کوئی مثبت بات نہیں اور انہیں اس سے باز رہنا چاہیے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا خوش آئند بات ہے کیونکہ آئین کی نفی یا آئین کے حکم میں تاخیر اچھی بات نہیں تھی بلکہ ملک میں غیریقینی کی صورتحال تھی اور ہر جگہ یہی بحث ہو رہی تھی کہ الیکشن ہو گا یا نہیں ہو گا اور ایسی فضا قائم ہو رہی تھی کہ کسی کو بھی کچھ علم نہیں تھا، اب آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس تاریخ پر انتخابات ہوں گے۔ بہتر ہوتا کہ سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ میں الجھنے کی بجائے از خود اس معاملے کو حل کرتیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے پر عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ قانونی تشریح اور فیصلوں کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔