• news

انتخابات کیسے ہوں گے۔۔؟

 انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا سپریم کورٹ نے انعقاد کو یقینی بنانے پر مہر بھی لگا دی اور ساتھ ہی صحافیوں پر قدغن بھی لگا دی کہ وہ انتخابات بارے ابہام پیدا نہ کریں۔ خبردار اب کوئی انتخابات نہ ہونے کی بات نہ کرے۔ جس صحافی کو انتخابات بارے کوئی شک ہو وہ اپنی بیوی سے بات کر لے۔ ہم نے چیف جسٹس صاحب کا حکم مانتے ہوئے اہلیہ محترمہ سے بات کی اور کہا کہ آپ کو انتخابات نظر آ رہے ہیں وہ گھریلو عورت ہے باہر کے ماحول کا بھی کچھ زیادہ پتہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت نے کہہ دیا ہے تو گارنٹی سمجھیں لیکن الیکشن لڑنے والے کہاں ہیں؟۔
 الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا ہے لیکن امیدوار نظر نہیں آ رہے۔ یہ کیسا انوکھا الیکشن ہے جس میں امیدواروں کی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔ ابھی تک نہ کوئی پوسٹر نظر آ رہا ہے نہ بینر۔ ہم نے کہا جھلیے الیکشن لڑنے والے بڑے تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں وہ ابھی ہواو¿ں کا رخ دیکھ رہے ہیں، پارٹیوں کی پوزیشن کو ناپ تول رہے ہیں۔ اس بار انتخابات تھوڑے منفرد ہوں گے جیتنے والے بھی حیران رہ جائیں گے اور ہارنے والوں کو بھی سمجھ نہیں آئے گی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اس لیے وہ ابھی الیکشن مہم شروع نہیں کر پا رہے۔ انھیں عوام سے ووٹوں کی یقین دہانی سے زیادہ آشیرباد میں دلچسپی ہے۔ ہر کوئی آشیرباد حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ اس بار تو نمبردار، چوہدری اور ڈیرہ دار بھی پریشان ہیں کہ ابھی تک انھیں کوئی بھی امیدوار گھاس نہیں ڈال رہا۔ نہ ڈیرے آباد ہو رہے ہیں نہ کھابوں کا دور چل رہا ہے نہ ابھی تک کوئی جوڑ توڑ شروع ہو رہا ہے حالانکہ ماضی میں سال سال پہلے امیدوار اپنی کمپین شروع کر دیتے تھے۔ 
میں نے اپنی صحافت کا آغاز 1988 میں الیکشن رپورٹر کے طور پر کیا تھا پھر الیکشن میرا پسندیدہ سبجیکٹ بن گیا۔ 1988ء سے آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں نے مختلف صحافتی اداروں میں بطور انچارج الیکشن سیل کور کیے ہیں۔ یقین کریں ہر دفعہ کھیل منفرد ہوتا ہے۔ گیم کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر بار نت نئے میتھڈزایجاد ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں ایسے سائنٹفک انداز سے دھول جھونکی جاتی ہے کہ کسی کو گھمان ہی نہیں ہوتا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ 
پراسراریت بتا رہی ہے کہ کچھ منفرد ہونے والا ہے یہی وجہ ہے کہ الیکشن لڑنے والے بھی ابھی متحرک نہیں ہو رہے۔ فضا میں ایک انجانا خوف ہے کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔ جس طرح دشمن دار بندے ہوا کو سونگھ کر خطرے کو بھانپ لیتے ہیں اسی طریقے سے سیاستدان بھی بڑے گھاگ ہوتے ہیں وہ آنے والے وقت کو دیکھ کر سیاسی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ وہ تاحال گو مگو کا شکار ہیں نہ ہی ابھی تک مرکزی پہلوانوں کی پوزیشنیں واضح ہو رہی ہیں کہ کون الیکشن لڑنے کا اہل ہے اور کون نااہل ہے۔ بہرحال اگر میدان سجنا ہے تو پھر کھلاڑی بھی آئیں گے۔ اب انتظار الیکشن شیڈول کا ہے الیکشن شیڈول کے آنے پر ہی انتخابی سرگرمیاں جان پکڑیں گی۔ سیاسی جماعتیں بھی بہت لیٹ ہیں ابھی تک بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں بن سکے۔ ویسے بھی الیکشن منشور کو کون پوچھتا ہے اگر یہ انتخابی ضابطے کی ضرورت نہ ہو تو کوئی اس بارے سوچے بھی نہیں۔ ویسے بھی انتخابی منشور پر عمل کون کرتا ہے۔ اب تو ووٹر بھی اس سے متاثر نہیں ہوتا انھیں پتہ ہے منشور تو بس الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کے لیے خانہ پری ہے سیاسی جماعتوں نے جو کرنا ہوتا ہے انھیں وہ بھی پتہ ہوتا ہے۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی سیاسی جماعتوں کی منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ملک کو چاروں طرف سے بحرانوں نے گھیر رکھا ہے سب کو اس کا ادراک بھی ہے سب اقتدار کے خواہش مند بھی ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نے رتی برابر بھی کوئی ہوم ورک کیا ہو، کوئی منصوبہ بندی کی ہو کہ ہم اقتدار میں آکر کس بحران سے کس طرح نمٹیں گے۔ کسی سیاسی جماعت کی کوئی منصوبہ بندی نہیں صرف چاپلوسی میں مخالف سے بڑھ کر سبقت لینے کی کوشش میں دن رات ایک کیے جا رہے ہیں۔ بغیر منصوبہ بندی کے آپ ایک سڑک نہیں بنا سکتے، گھر کا ایک کمرہ تعمیر نہیں کر سکتے۔ پھر آپ منصوبہ بندی کے بغیر کس طرح ملک کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ 
عدالت نے جہاں اس ملک کے 24 کروڑ عوام پر رحم کھاتے ہوئے غیر یقینی کی فضا کو ختم کیا ہے انتخابات کی تاریخ دلوا دی ہے، وہیں ایک اور مہربانی کرے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کا پروگرام عدالت میں جمع کروائیں۔ ان سے مرحلہ وار شیڈول لیا جائے جہاں وہ اپنے جمع کروائے گئے شیڈول سے روگردانی کریں وہیں ان کو نااہل قرار دے دیا جائے تاکہ انھیں خوف ہو کہ اگر ہم نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو ہم نااہل ہو جائیں گے۔ ہر بار عوام سے فراڈ ہو جاتا ہے عوام کو سبز باغ دکھا کر لوٹ لیا جاتا ہے اور پھر ت±و کون اور میں کون۔ عوام کے حقوق کا بھی تحفظ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں اعتماد آئے کہ ہم بھی سٹیک ہولڈر ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن