منگل ‘ 2 2 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 7 نومبر 2023ئ
پی ڈی ایم میں شامل اتحادیوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ اسحاق ڈار۔
الیکشن کی فضا بنتے ہی سیاسی ہلچل بھی بڑھ گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں حسب سابق مول تول میں مصروف ہو رہی ہیں۔ اندازوں اور تجربوں سے جانچا جا رہا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کئی جماعتیں تو ماضی کو فراموش کر کے مٹی پاﺅوالی پالیسی پر عمل پیرا ہو رہی ہیں۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی تن تنہا الیکشن لڑنے پر آمادہ ہیں مگر اندر خانے ان میں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے یا ہونے ک امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب کہاں گئی لڑائی اور کہاں گئیں الزام تراشیاں، بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے اسے ہم سیاسی رواداری بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی حال مسلم لیگ (نون) کا بھی ہے اس کے رہنما اسحاق ڈار بھی کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ اس وقت اگر سیاسی تماشے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا یہ میلہ سجانے یا لوٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اب لاکھ کوئی خود کو رستم زماں کہلائے یا رستم پاکستان۔ اندر خانے سب جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر چکے ہیں اس کے بعد ان کے لیئے عوام کو مزید بے وقوف بنانا آسان نہ ہو گا۔ اس لیے عوام کو بھی مستقبل میں ایک مخلوط حکومت بنتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم جب تک
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کے مداری گیا
والا معاملہ نہیں بنتا یہ سیاسی مداری تماشہ دکھاتے رہیں گے اور تنہا ہو یا مخلوط۔ حکومت بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہی رہے گی۔
٭٭٭٭٭٭
نجی سکولوں میں بھی پولنگ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ۔
نجی سکولوں کی بڑی تعداد جب موجود ہے تو وہاں پولنگ سینٹر بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔ بس عملے کو ذرا تربیت دینی ہو گی اور سکیورٹی کا نظام سخت کرنا ہو گا۔ ورنہ ہمارے سیاسی مافیاز یہاں پولنگ سے زیادہ ڈبہ بھرنے کے پروگرام پر عمل کرتے نظر آئیں گے۔ اس لیے چند کمرے والے سکولوں کی بجائے مناسب محل وقوع والے سکولوں کا انتخاب کرنا ہو گا تاکہ ووٹر اور پولنگ کا عملہ سیاسی مافیاز کی دستبرد سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے اس جدید دور میں بھی ہمارے الیکشن جھرلو ٹھپہ جیسے غیر جمہوری عمل سے محفوظ نہیں۔ شاید اتنا یہ کام ہوا نہیں ہوتا جتنا ہماری سیاسی جماعتیں ہوا کھڑا کر دیتی ہیں۔ جونہی کسی جماعت کو اپنی ہار نظر آنے لگتی ہے وہ دھاندلی کی گردان شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح انتخابی عمل شکوک اور شبہات کی زد میں آ جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں تو چلیں پھر پولیس کو انتخابی عملے کو عوامی ردعمل کا تھوڑا بہت خوف رہتا ہے۔ ان بڑے شہروں میں سکیورٹی بھی خاصی سخت ہوتی ہے۔ مگر دیہات میں پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کا معاملہ غیر یقینی رہتا ہے۔ وہاں سیاسی غنڈ ے آ کر کسی بھی وقت پولیس کی کہہ لیں یا انتظامیہ کی ملی بھگت سے کارروائی ڈالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اب اگر حکومت نے نجی سکولوں میں پولنگ سٹیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ اچھا اقدام ہو گا کیونکہ اس طرح ہر شہری اپنے نزدیکی پولنگ سٹیشن کا رخ کرے گا اور لمبی لمبی لائنوں سے ان کی جان چھوٹ جائے گی۔ بس ذرا احتیاط رہے کہ یہ تنگ گلیوں میں نہ ہوں۔ اس طرح امیدواروں کو ٹینٹ لگانے اور کھابوں کے ساتھ چائے پلانے کے عوامی خدمت کے پروگرام میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ پوری دنیا میں ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ووٹ ڈالنے والوں کو خوب کھلاتے پلاتے ہیں۔ کم از کم الیکشن مہم کے دوران اور الیکشن کے دن تو یہ ووٹر جنہیں انتخابی امیدوار عام طور پر منہ نہیں لگاتے ، مہمان خصوصی یا دولہا والے بنے ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
اٹلی میں قصبوں کی آبادی بڑھانے کا منصوبہ
یہ یورپ کی کامیابی کا راز ہے کہ وہ بے تحاشہ شہروں کی آبادی بڑھا کر وہاں مسائل میں اضافہ نہیں کرتے۔ ایک حد سے زیادہ آبادی بڑھنے پر نئے شہر بساتے ہیں یا چھوٹے شہروں کی طرف آبادی منتقل کرتے ہیں۔ یہ صرف انتقال آبادی کا منصوبہ نہیں ہوتا۔ آبادی منتقل کرنے سے قبل وہاں ہر طرح کی جدید انتظامی سہولت کاروباری سہولیات، تعلیم و کھیل کی سرکاری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ گھر اور اپارٹمنٹس تیار کرکے یا بنانے کے لیے لوگوں کو قرضہ یا امداد دی جاتی ہے یوں لوگ ہنسی خوشی ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ اب اٹلی میں تو حکومت نے ایک منفرد منصوبہ بنایا ہے۔ چھوٹے قصبوں میں لوگوں کو آباد کرنے کی پرکشش ترغیبات دی جا رہی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت شہریوں کو ان چھوٹے قصبوں میں آباد ہونے کے لیے مالی مداد دی جا رہی ہے تاکہ وہ وہاں گھر بنا سکیں۔ اس کے ساتھ اوپر درج تمام سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے علاقے میں ہی تعلیم ، صحت اور روزگار اور سرکاری کام کاج کی سہولت حاصل ہو۔ اب شہروں کے شور شرابے سے تنگ کون ہو گا جو ان پرسکون قصبات میں جا کر رہنا پسند نہیں کرے گا جہاں انہیں تمام شہری سہولتیں حاصل ہوں گی۔ کیا ہمارے حکمران اس طرح کے منصوبوں پر عمل کر کے بڑے شہروں میں بے تحاشہ بڑھنے والی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو ختم کرنے کیلئے یکسو ہو کر کام نہیں کر سکتے۔ ہمارے دین میں بھی نئے شہر بسانے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح چھوٹے قصبوں میں عوام کو تمام سہولتیں بھی ملیں گی اور یہ بھی چھوٹے شہر بن جائیں گے۔ لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی نئے شہر بسانے کے لیے بہترین جگہ بن سکتی ہے۔ یوں لینڈ مافیاز سے بھی نجات مل جائے گی اور لوگوں کو ارزاں نرخوں پر حکومتی امداد سے رہائشی پلاٹ یا سستے مکان مل سکتے ہیں۔یوں دیہات سے شہروں کی طرف جانے کا رحجان بھی ختم ہو گا۔
٭٭٭٭٭
امریکی وزیر خارجہ کی ترکی آمد پر شہریوں کے مظاہرہے۔
ترکی میں امریکی وزیر خارجہ کی آمد پر امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ ، عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اول تو کسی مسلم ملک کو اس وقت تک کسی امریکی برطانوی یا اس ملک جو غزہ پر حملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اسے جائز قرار دیتا ہے کے کسی وفد یا وزیر کو اپنے ملک میں گھسنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ان قاتلوں نے اگر قتل کے بعد ہمارے ہی گھر میں آ کر قاتلوں کی حمایت کرنی ہے تو بہتر ہے ہم ان کی میزبانی سے اس وقت تک معذرت ہی کر لیں جب تک یہ اسرائیل کو غزہ پر حملوں سے نہیں روکتے۔ امریکی وزیر خارجہ کے عرب ممالک اور ترکی کے دورے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان ممالک میں اسرائیل کی مذمت یا حملے روکنے کے لیے کوئی منصوبہ لے کر نہیں آئے بلکہ وہ ان ممالک کو اسرائیل کی درپردہ حمایت پر آمادہ کرنے آئے ہیں۔ فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف ایک دو عرب ممالک ، ترکی اور ایک آدھ افریقی ملک سمیت 8 ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا شاید وہ اپنے فیصلے پر نادم ہیں۔ جوبائیڈن کی حکومت کو خود امریکہ میں متعدد سینٹرز کی طرف سے جوتے پڑ رہے ہیں۔ عوام کی تو بڑی تعداد روزانہ اسرائیل کیخلاف مظاہرے کر رہی ہے۔ خود اسی وزیر خارجہ کو امریکہ میں تقریر کرتے ہوئے درجنوں سینٹرز نے لہو میں ڈوبے ہاتھ دکھا کر احتجاجی کارڈ دکھا کر بار بار تقریر سے روکا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام ہی نہیں حکومت کے اندر بھی لوگ اسرائیلی مظالم کے خلاف ہیں۔ اب کم از کم ہمارے مسلم حکمران بھی فلسطینیوں کی عملی حمایت کے لئے آگے بڑھیں۔
٭٭٭٭٭