تیسری جنگ کا دہانہ، لاہور کا وزیر اعظم
ایک انوکھی بات قضیہ غزہ کے حوالے سے سننے پڑھنے کو مل رہی ہے۔ ہر دوسرا ٹی وی پروگرام اور ہر تیسرا تجزیہ نگار یہ بتارہا ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بعض محتاط تجزیہ نگار دہانے سے تھوڑا پیچھے کھڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا کہنا کچھ یوں ہوتا ہے کہ دنیا تیسری جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
کیسے؟۔ کیا بھوٹان امریکہ پر حملہ کرنے والا ہے؟ یا پانامہ کا بحری بیڑہ اسرائیل پر حملے کیلئے روانہ ہو گیا ہے۔؟۔ غزہ کی صورتحال میں دنیا کوئی دو فریقوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ کم و بیش ساری حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں، پھر تیسری جنگ کا خطرہ کہاں سے ہو گیا ہے؟۔ عالمی رائے عامہ کو فی الحال نظر انداز ہی کر دیجئے۔ کم از کم اسرائیل کی حد تک یہ اپنی حکومتوں کا رخ نہیں موڑ سکتی۔ ابھی تین دن پہلے کی بات ہے، ایک سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا، میں جتنے بھی عرب حکمرانوں سے ملا، سب نے ایک ہی بات کی کہ حماس کو جلد از جلد ختم کرو۔ ایک رائے ہے کہ ”جتنے بھی عرب حکمرانوں“ میں قطر بہرحال شامل نہیں ہے۔
ایسا ہے تو پھر تیسری جنگ کا خطرہ ہمارے تجزیہ نگاروں کو کیوں ہلکان کئے دے رہا ہے یا یہ محض تکیہ کلام ہے جس کے بغیر پروگرام یا کالم میں چسکا پیدا نہیں ہوتا۔
برسرزمین ”حقائق“ کچھ اس طرح سے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو بالکل بیچوں بیچ سے کاٹ دیا ہے یعنی الدرعا کے مقام سے جہاں غزہ کی دبلی پٹّی اور بھی پتلی ہو جاتی ہے۔ اب شمالی اور جنوبی غزہ میں رابطہ نہیں رہا ہے اور پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی کا محاصرہ بھی تقریباً مکمل کر لیا ہے۔ غزہ سٹی کی آبادی کوئی چھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دراصل غزہ کی ساری پٹی عملاً ایک ہی شہر ہے۔ شمال کے کنارے سے آبادیاں (اب کھنڈرات) شروع ہوتی ہیں تو باہم پیوستہ ہوتی ہوئی جنوبی کنارے پر ختم ہوتی ہیں۔ ماضی میں جب آبادی چند لاکھ تھی تو بہت سے شہر یا قصبے تھے، اب سب باہم ایک ہی لمبی، لگ بھگ 20 میل طوالت میں چلتی چلی گئی ہیں۔
شمالی غزہ کی دس لاکھ آبادی میں سے 6 لاکھ اِدھر ا±دھر پھیلے ہسپتالوں، بچے کھچے سکولوں، مساجد اور اقوام متحدہ کے شیلٹرز میں پناہ گزین ہیں۔ یعنی ان کے گھر نہیں رہے یا گھروں میں وہ نہیں رہے اور خالی گھر بھی گھر نہیں رہے، کھنڈر بنا دئیے گئے ہیں۔ یہ پناہ گزین آبادی بھی ہر رات ہونے والی بمباری سے محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی بمبار طیارے اور راکٹ سہڑیاں ہر رات 500 افراد کی جان لینے کا ہدف پورا کرنے کی پابند ہیں۔
سب کی مرضی کا ہدف پورا ہو رہا ہے تو تیسری عالمی جنگ کا اندیشہ ایسے ہی ہے جیسے صحرائے اعظم میں سونامی آنے کا۔ عالمی کیا، علاقائی جنگ ہونے کا بھی دور دور تک خطرہ نہیں ہے۔ چین یا روس کے امریکہ مخالف بیانات امریکہ پر تنقید کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ایران سمجھتا ہے کہ غزہ کی ساری آبادی اخوانی ہے اور اخوان سے اس کی ”محبت“ شام کی پچھلی دس سالہ تاریخ (اور پھر یمن کے واقعات)سے عیاں ہے عرب حکمران خورسند ہیں، بھارت خوش ، حکمران شاداں، دیگر مسلمان ممالک کے سربراہ فرحاں ہیں اس لئے پریشان مت ہوئیے، تمام ملکوں کے راوی چین ہی چین لکھ رہے ہیں۔ سوہان روح بات البتہ یہ ضرور ہے کہ اسرائیل کو پورے عالم عرب اور پاکستان پر ”محیط“ کرنے کا عظیم ”ابراھام پلان“ فی الحال، غیر معینہ مدّت کیلئے لٹک گیا ہے۔
_____
نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان ٹیلی فون رابطے کی خبر پر بلاول میاں میں شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ فرمایا، یہ خبر تو پرانی ہے۔ ذرائع نے تصدیق کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا، بلاول میاں سچ کہہ رہے ہیں، فون رابطے کی خبر کئی گھنٹے پرانی ہے۔
فرمایا، اگلا وزیر اعظم لاہور سے نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی ٹھیک ہی کہی، لاہور سے نہیں، جاتی عمرہ سے ہو گا جو لاہور سے اچھی خاصی ”ڈرائیو“ کے فاصلے پر ہے۔
مزید فرمایا ، ہم ”کسی اور“ کی طرف نہیں دیکھتے۔ لیجئے صاحب، کل تک جو ریاست تھی، اب وہ ”کسی اور“ ہو گئی۔ یاد ہو گا، بلاول میاں کے بابا جانی نے چند سال پہلے ہی ”کسی اور“ کی ہدایت پر اور اسی ”کسی اور“ کی مدد سے بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت گرائی تھی۔ ، سینٹ میں اسے ”محدود“ کیا تھا اور پھر اسی ”کسی اور“ کی پکّی یقین دہانی پر یہ اعلان کیا تھا کہ میں پنجاب میں بھی تمہارا وزیراعلیٰ نہیں بننے دوں گا۔ اور یہ اعلان سچ ثابت ہوا۔ پنجاب میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود مسلم لیگ اپنا وزیر اعلیٰ نہیں لا سکی اور زرداری صاحب کا ”ہمارا“ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بن گیا۔
ہفتہ ڈیڑھ پہلے زرداری صاحب نے اسی اعلان کا توسیع شدہ ایڈیشن یہ کہہ کر جاری کیا کہ میں نواز شریف کو وزیر اعظم بننے نہیں دوں گا۔ لیکن اس دھماکہ خیز اعلان کے معاً بعد زرداری صاحب کو یاد آیا کہ پچھلی بار جو ”قوت متحرکہ“ ان کے پیچھے کھڑی تھی، اب ان کے پیچھے نہیں کھڑی ہے، سرک کر واپس اپنی جگہ چلی گئی ہے چنانچہ احباب ان کے اس اعلان کے اعادہ کے منتظر رہے، اعادہ نہ ہو سکا، یعنی مڑ کے زرداری صاحب نے پھر سے یہ نعرہ مستانہ نہیں لگایا اور دل ہی دل میں اس خبر کو صبر کے ساتھ سن لیا کہ اگلے وزیر اعظم تو نواز شریف ہی ہوں گے۔
بلاول میاں نراش نہ ہوں کہ ایک آس باقی ہے، پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹر اپنے امیدوار نہ پا کر، مسلم لیگ ن پر اپنا غصہ نکالنے کیلئے پیپلز پارٹی کے ”تیر“ پر ٹھپہ لگا سکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ منافع تو پیپلز پارٹی کو مل ہی جائے گا۔
بہرحال، نواز زرداری رابطہ کسی انتخابی اتحاد کیلئے نہیں ہے، یہ انتخابی مہم کو درمیانے درجہ حرارت پر رکھنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ امید پرست امید کر رہے ہیں کہ اس بار کی انتخابی مہم پہلی بار زیادہ جارحانہ نہیں ہو گی۔
_____
اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ دہشت گرد دین اسلام کے دائرے سے خارج ہیں۔
دین کے دائرے سے تو وہ کب کے خارج ہو چکے، باردگر خارج کرنے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں دنیا کے دائرے سے خارج کیا جائے۔ یہ ضرورت کماحقہ پوری نہیں ہو رہی چنانچہ، انتخابات کا موسم آتے ہی اس گروہ کی ”انتخابی سرگرمیاں“ بڑھ گئی ہیں۔ تین روز میں 22 جوان شہید ہو چکے۔ انتخابی سرگرمیوں سے مراد انتخابات کو رکوانا ہے کیونکہ ”لاڈلا“ میدان سے باہر ہے۔ اس لئے!