انتخابی اتحاد کا موسم!!!!
گذرے ہوئے دن کا سائرن تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد مخلوط حکومت قائم ہو گی اور اس مخلوط حکومت میں لگ بھگ ڈیڑھ درجن یا اس سے بھی زیادہ جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں ۔ اس ممکنہ سیاسی صف بندی کا اندازہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہے۔ سب کو اس کا ادراک ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ اس کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت تمام بڑے سیاست دان عوامی سطح پر اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور اپنی جماعت کے بڑوں کو اس حوالے درست سمت میں آگے بڑھنے کا سبق دینے کے بجائے نفرت کا پیغام پھیلانے پر توجہ دیے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک میں نفرت کو کم کرنے اور محبت کو عام کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مطلب جب حقیقت سے آگاہ ہیں تو عوام کی سوچ بدلنے کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے۔ کیا یہ ہمارا نصیب ہے کہ ووٹ لینے کے لیے دوسروں کو برا بھلا کہنا ہے، لعن طعن کرنی ہے، سازش کرنی ہے، الزام تراشیاں کرنی ہیں اور ووٹرز کو گمراہ کرنا ہے۔ اب یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنا پیغام اپنے پاکستانیوں اور سیاسی قیادت تک پہنچاو¿ں اور ملکی تعمیر میں اپنا کردار ادا کروں۔ کبھی تو میرے ملک کی سیاسی قیادت اس انداز میں سوچے گی کہ اسے احساس ہو کہ اس ملک کے لوگوں کو محبت، تعاون، پیار اور احساس کی ضرورت ہے۔ کل کا سائرن اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ آج کے اخبارات آپ کو بتا رہے ہوں گے کہ ملک میں انتخابی اتحاد قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے مل کر آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نواز شریف سے ملاقات کے بعد ایم کیوایم اور (ن) لیگ کے رہنماو¿ں نے پریس کانفرنس کی. اس موقع پر سعد رفیق نے کہا کہ "ڈیڑھ سال قبل ایم کیوایم سے سیاسی اتحاد ہوا تب ہی آج والا اتحاد طے پا گیا تھا، آٹھ فروری کا الیکشن رواداری کے ماحول میں لڑنے جارہے ہیں۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام مسائل کا حل کسی ایک جماعت کے پاس نہیں، قومی معیشت کی بات ہو یا قومی سیاست میں کراچی کا کردار اہم ہے۔مصطفیٰ کمال کے مطابق انتخابی اتحاد وزارتوں کے لیے نہیں لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ہوگا،کراچی دودھ دینے والی گائے ہے تو اسے چارہ تو کھلائیں، دو ہزار تیرہ میں کراچی کی بیس میں سے سترہ نشستیں ایم کیوایم نے جیتی تھیں، ہم اپنی دو ہزار تیرہ والی پوزیشن پر واپس جائیں گے۔"
یہ اتحاد بہت اچھی بات ہے اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ مصطفی کمال نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس سیاسی اتحاد کا مقصد وزارتوں کا حصول ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد کراچی کے مسائل کرنا ہے۔ بہت اچھی بات ہے کاش کہ انتخابات کے بعد بھی یہ سب لوگ اس بیانیے پر سختی سے قائم رہیں اور پورے جوش وجذبے کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں سیاسی قیادت کا جوش و جذبہ قومی دنوں پر ہی نظر آتا ہے۔ ان دو جماعتوں نے اتحاد کا اعلان کر دیا ہے آنے والے دنوں میں ن لیگ مزید سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد کر سکتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی والے اپنے گھوڑے دوڑائیں گے یوں سب مل جائیں گے اور اس طرح جب انتخابات ہوں گے تو اس کے بعد ڈیڑھ درجن یا اس سے کچھ زیادہ جماعتوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف بھی کسی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے یا نہیں۔
اللہ کرے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت ملک و قوم کی خدمت بھی کرے۔ ماضی میں تو سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ صرف نقصان نہیں بلکہ شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر پاکستان سٹیل مل خسارے میں ہے تو اس کہ ذمہ دار سیاسی قیادت ہے کیونکہ نہ تو وہاں بہتر کام ہوتا ہے نہ سیاسی قیادت میرٹ پر فیصلے کرتی ہے، نہ ہی بروقت فیصلے کرتی ہے، نہ ہی ملک کی ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے، اپنے لوگوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کر رکھا ہے، اداروں کے اخراجات بڑھا دیے گئے ہیں، آمدن میں کمی ہوئی ہے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ نہ تو سیاسی حکومتوں نے پی آئی اے کی نجکاری بارے بروقت اور بہتر فیصلہ کیا نہ وہاں بھرتیاں کرتے ہوئے میرٹ کو سامنے رکھا۔ اس حکمت عملی سے ووٹرز تو خوش ہو گئے لیکن پی آئی اے آج بھی خسارے میں ہے۔ ملک کے مالی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی نے آمدن اور اخراجات میں توازن کی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ یاد رکھیں یہ کوئی چھپی چیز نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت نے مصلحت سے کام لیا اور ان مصلحتوں کا نقصان عام آدمی برداشت کر رہا ہے۔ معاشی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔ باقی سیاسی جماعتوں کے بھی مختلف بیانات ہیں ان پر کل لکھا جائے گا لیکن یہ سب کو یاد کرواتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ملک سے نفرت کو ختم کرنے میں سیاسی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں فاروق قیصر عرف انکل سرگم کا کلام
میرے پیارے اللہ میاں
دل میرا حیران ہے ،
میرے گھر میں فاقہ ہے ،
اس کے گھر میں نان ہے ،
میں بھی پاکستان ہوں ،
اور وہ بھی پاکستان ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
لیڈر کتنے نیک ہیں ،
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل ،
خود وہ کھاتے کیک ہیں ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
یہ کیسا نظام ہے ؟
فلموں میں آزادی ہے ،
ٹی وی پر اسلام ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
سوچ کے دل گھبراتا ہے ،
بند ڈبوں میں خالص کھانا ،
ان کا کتا کھاتا ہے ،
میرا بچہ روتے روتے ،
بھوکا ہی سوجاتا ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
دو طبقوں میں بٹتی جائے ،
ایسی اپنی سیرت ہے ،
ان کی چھت پر ڈش انٹینا ،
میرے گھر میں بصیرت ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے ؟
اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے ،
میری آنکھ میں روٹی ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
تیرے راز بھی گہرے ہیں ،
ان کے روزے سحری والے ،
میرے آٹھ پہرے ہیں ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
روزہ کھولوانے کی ان کو ،
دعوت ملے سرکاری ہے ،
میرا بچہ روزہ رکھ کر ،
ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے ؟
این ٹی ایم کا سر ہے ننگا ،
پی ٹی وی پر دوپٹہ ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
بادل مینہ برسائے گا ،
اس کا گھر دھل جائے گا ،
میرا گھر بہہ جائے گا ،
میرے پیارے اللہ میاں ،
چاند کی ویڈیو فلمیں دیکھ
کر اس کا بچہ سوتا ہے ،
میرا بچہ روٹی سمجھ کر
چاند کو دیکھ کے روتا ہے ،
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسی ترقی ہے ؟
ان کی قبریں تک ہیں پکی
میری بستی کچی ہے