• news

اجمعة المبارک ‘ 2 5 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 10 نومبر 2023ئ


قبال ڈے ملک بھر میں جوش و خروش سے منایا گیا۔
 علامہ اقبال کا یوم پیدائش یوں تو سب مناتے ہیں مگر اس روز نہ عوام نہ ان کے حکمران کوئی بھی ایسا کام نہیں کرتے ہیں جس سے انکے پیغام کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے۔ یوں تو سارے حکمران، واعظ حضرات اور عوام و خواص دن رات 
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کاشعر لہک لہک کر ہر مقام پر دھراتے ہیں۔ اس حوالے سے بھرپور تقاریر بھی ہوتی ہیں مگر وہ بھی صرف لفاظی کی حد تک ہی رہتی ہیں۔ عملی طور پر لوگوں اور اپنے حکمرانوں کو ہم کچھ ایسا کرنے پر آمادہ نہیں کرتے۔ شاید تقریریں کرنے والے خود بھی ایسا کچھ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ راہ عمل میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلم امہ جس کے لیے علامہ اقبال کا دل دھڑکتا تھا، ان کے پیغام کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ اس وقت فلسطین پر اسرائیلی حملے کو ہی دیکھ لیں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا لہو پانی کی طرح بہہ رہا ہے مگر اسلامی امہ صرف اجلاس کر کے مذمتی قراردادیں پاس کر رہی ہے۔ لے دے کر خوراک اور ادویات وہاں بھیج رہی ہے وہ بھی اسرائیل کی مرضی پر منحصر ہے جانے دے یا نہ جانے دے۔ اس سے زیادہ بے حسی کیا ہو گی۔ اقبال ہمہ وقت اس قسم کے حالات سے خبردار کرتے رہے۔ اقبال کا ”اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو“ کا نعرہ بھی چالاک سرمایہ دار مزدور کو روٹی پانی کے چکر میں ڈال کر لے اڑا اور خود چالاکی سے ان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے عوام اور ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ یوں عالم اسلام سے لے کر پاکستان تک ہر جگہ مسلم امہ اقبال کے پیغام کو فراموش کر کے خود فراموشی کے عالم میں ہے۔ بس ان کا دن منا کر ہم سب اپنی طرف سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ایام منانے کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان کے پیغام کو پھیلانے، اس پر عمل کرنے کی ضرورت زیاہ ہے۔ اقبال نے بھی یہی کہا تھا 
خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نورِبصیرت عام کر دے
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ (نون) غائب پنجاب سے ہوئی ڈھونڈ سندھ میں رہی ہے: پلوشہ خان
 کام تو یہی والا پیپلزپارٹی بھی پنجاب میں کر رہی ہے مگر پھر بھی کمال کاجملہ کہا ہے پلوشہ نے۔اب نون لیگ والے اس صورتحال پر اقبال کا یہ شعر نہ پڑھیں کہ
جہاں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں کھونا اور ڈھونڈنا ایک عجب کہانی سناتا ہے۔ چیز اول تو وہاں ہی ڈھونڈنی چاہیے جہاں کھوئی تھی۔ مگر شاید اردگرد اڑنے والے اور کاندھوں پر بیٹھنے والے طوطے شریف برادران کو سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہوں گے یا سب اچھا ہے کی کہانی سنا رہے ہوں گے۔ انہیں ڈر ہوگا کہ اگران5 سالوں کی کارکردگی ان سے پارٹی کے سربراہ نے پوچھ لی تو کیا وہ جواب دیں گے۔ اکثریت اس دور ابتلا میں گھروں میں دبکے بیٹھے رہے۔ عوام سے لاتعلق ہوگئے یا دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ اب رہی بات پیپلزپارٹی کی تو وہ بھی یہی کوشش کر رہی ہے۔ ڈوبی اس کی کشتی بھی پنجاب میں ہے۔ وہ اس کو نکالنے کی کوشش میں بار بار پنجاب پر شب خون مار رہی ہے۔ مگر اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ بہرحال مسلم لیگ(ن) ہو یا پیپلزپارٹی‘ دونوں کا ووٹر بچہ پنجاب میں کھو گیا ہے۔ اب وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ دونوں کا مشترکہ درد پنجاب سے وابستہ ہے اور پنجاب میں ہی اس کا علاج موجود ہے۔ اب پنجاب کو پانچ دریاو¿ں کی سرزمین کہا جاتا ہے‘ جبھی اس کے سر سبز سیاسی میدان میں سب پارٹیاں قلانچیں بھرتی نظر آتی ہیں۔ اب سندھ میں طویل عرصہ سے پیپلزپارٹی دیہی علاقوں میں صرف جئے بھٹو، جیئے بے نظیر کے نعرے پر راج کرتی رہی ہے۔ شہری علاقوں میں جب تک کٹی پتنگ کا دور تھا‘ پی پی وہاں پر نہیں مار سکتی تھی۔ جماعت اسلامی تک کونے میں لگی نظر آتی تھی۔ اب وہاں نئے چہرے سامنے ہیں۔ ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی‘ سندھ کے شہری علاقوں میں آن کھڑی ہے۔ اب مسلم لیگ(نون) اور ایم کیو ایم کا الیکشن اتحاد شہری علاقوں میں کچھ نہ کچھ ضرور رنگ جمائے گا۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے والے بھی کوشاں ہیں۔ دیکھنا ہے اب کون کس کو کہاں ڈھونڈ نکالتا ہے۔ مسلم لیگ کو سندھ میں یا پی پی پی کو پنجاب میں
٭٭٭٭
 فلسطین پر ہمارا وہی مو قف ہے جو قائداعظم کا تھا: مولانا فضل الرحمن۔
اللہ کی شان دیکھیں اسے کہتے ہیں سانچ کو آنچ نہیں۔ آج وہ لوگ جن کے بڑے سیاسی میدان میں قائداعظم کے مخالف تھے‘ آج ان کے موقف کی حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ فلسطین میں جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے‘ اسکے پیچھے برطانیہ، امریکہ اور فرانس جیسے متعصب یورپی ممالک کا ہاتھ ہے۔ اگر وہ اس بگڑے ہوئے بچے کا ہاتھ روکتے تو آج یہ خون خرابہ نہ ہوتا۔ مگر انہوں نے اس بدمعاش کے ہاتھ میں اسلحہ پکڑا کر اسے غنڈہ گردی کی کھلی چھٹی دیدی ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم نے بہت پہلے جب فتنہ جنم لے رہا تھا‘ اس کی تباہ کاریوں سے دنیا بھر کی اقوام کو خبردار کیا تھا اور مسلم امہ کو بتلا دیا تھا کہ اسرائیل کا وجود ناقابل برداشت ہوگا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ وہی کچھ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فرمایا تھا۔ آج وہی بات جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن بھی کہہ رہے ہیں اور قائد کا نام لے کر ان کی سچائی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے حقیقی قیادت کا کردار جو خود بنتا ہے ملمع کاری سے‘ سوشل میڈیا سے نہیں بنایا جاتا۔ جلد ہی وہ وقت بھی آئے گا جب ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار پر بالآخر جمعیت علمائے اسلام والے کھل کر فلسطین کی طرح قائداعظم کے فرمان کی تصدیق کریں گے۔ ان کے موقف کی حمایت کرکے اپنے بزرگوں کی متحدہ قومیت کے بنائے بت کو پاش پاش کر دیں گے۔ اسرائیل جو فلسطین میں کر رہا ہے‘ وہی بھارت اور کشمیر میں ہندوتوا کے حامی حکمران کر رہے ہیں۔ دونوں کا کام مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ اس میں انہیں یورپی اقوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس نفرت اور نسل کشی سے بچنے کے لئے قائداعظم نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے لئے علامہ اقبال کے دیکھے خواب کو عملی جامع پہنانے کی ٹھانی اور دنیا میں پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔
٭٭٭٭
مہاجرین کی رجسٹریشن میں 6 ماہ کی توسیع ، نکالنے والی پالیسی پر منفی پراپیگنڈا۔
ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم کوئی کام باقاعدہ منصوبہ بندی سے شروع نہیں کرتے۔ سکھوں والا معاملہ کرتے ہیں پہلے کام کر لیتے ہیں پھر سوچتے ہیں کہ یہ کیا ہوا یہ کیا ہو رہا ہے۔ 
یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور ہم سب کچھ جاننے کے باوجود نتائج سے بے پرواہ ہو کر کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر وہی 
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر 
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
 والا حال ہوتا ہے سو ہم ماتم کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ حق و سچ کے ساتھ کھڑا رہنا دشوار اور رونا دھونا آسان ہوتا ہے۔ اب اس بات میں کوئی دو آرا نہیں کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے ہمارے ملک میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ دفاعی لحاظ سے بھی ہمیں بیک وقت اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں آج تک کوئی بھی حکومت ایسی نہیں آئی جو ہمارے مسائل کا ادراک کرتی البتہ ہمارے مسائل میں اضافہ کی بھرپور کوشش وہاں سے ہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں بھارت دوستی کا جنون سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ 40 لاکھ مہاجرین ہم سنبھال رہے ہیں اور محبت بھارت سمیٹ رہا ہے ، ہے ناں عجیب بات۔ بہرکیف اب غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے تو اس پر افغانستان ہمیں ہی جلی کٹی سنا رہا ہے۔ ہمارے ادارے اگر پہلے غیر قانونی مہاجرین کو نکال کر سرحدی کیمپوں تک محدود کرتے پھر وہاں سے انخلا کراتے تو کم از کم اس طرح افغان خواتین، بچوں اور بزرگوں کو راحت ملتی۔ اب کیا کریں ان غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین میں بھی سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے ہیں جو 20 یا 30 سال سے یہاں رہ رہے تھے۔ انہوں نے غیر قانونی آبادیاں قائم کی ہوئی تھیں اب انہیں نکالنے کے عمل سے کچھ مسائل سر اٹھا رہے ہیں تو اسے افغانستان خوش اسلوبی سے مل کر یہ معاملہ طے کرے ناکہ ”را“ کے ساتھ مل کر رولا ڈالے اور پاکستان کو بدنام کرے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن