• news

فلسطینیوں کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے: وزیراعظم

اسلام آباد‘ ریاض (خبر نگار خصوصی+ خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے صدر محمود عباس کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان فلسطین کی سفارتی و اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق جمعہ کو نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے فلسطین کے صدر محمود عباس نے ملاقات کی۔ وزیرِ اعظم نے فلسطین بالخصوص غزہ میں قابض صہیونی فوجوں کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کے قتلِ عام و نسل کشی پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم نے صدر محمود عباس کو یقین دلایا کہ پاکستان فلسطین کے لوگوں کی سفارتی و اخلاقی مدد جاری رکھے گا۔ وزیرِ اعظم نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان عالمی سطح پر فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتا رہے گا۔ انوار الحق کاکڑ نے عالمی قوتوں کی غزہ میں جاری بربریت پر خاموشی کو شرمناک قرار دیا۔ وزیرِ اعظم نے اس امر پر زور دیا کہ عالمی قوتیں غزہ میں جنگ بندی، نہتے فلسطینیوں بالخصوص معصوم بچوں کے قتل عام کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ملاقات میں دونوں رہنماﺅں نے غزہ میں فوری طور پر غیر مشروط جنگ بندی اور اشیاء ضروریہ و طبی امداد کی فراہمی کیلئے راہداری کے قیام کا مطالبہ کیا۔ صدر محمود عباس نے پاکستان کا اس مشکل وقت میں فلسطینیوں کا ساتھ دینے اور غزہ کے محصور مسلمانوں کیلئے امداد بھیجنے پر وزیراعظم اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ علاوہ ازیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے بھارت کی عدم توجہی کے باوجود پاکستان اپنی اور خطے کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرناہوگا۔ غزہ میں ہونے والی تباہی کے اثرات خطے اور اس سے باہر تک پھیلنے کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے وہاں فوری جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاشقند میں اقتصادی تعاون تنظیم کے 16ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر خبر رساں ادارے اناطولیہ کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ خطے میں ایک کھلا انسانی المیہ نظر آرہا ہے۔ اور اس کا اثر نہ صرف خطے میں بلکہ شاید خطے سے باہر بھی پڑے گا۔ انہوں نے غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے پر زوردیا۔ وزیراعظم نے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاءکی بلا تعطل فراہمی کے لیے انسانی راہداری کے قیام کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ او آئی سی کو غزہ کی صورت حال پر غور کرنا چاہیے، اور اجتماعی ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ بغیر دستاویزات مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے پاکستان کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ملک نے یہ فیصلہ تھوڑی تاخیر سے کیا، لیکن ہم سرحد پرآمد و رفت کو منظم کرنے کے لیے بہت زیادہ پرعزم ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی ملک کی طرف سے غیر قانونی امیگریشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے تو پاکستان کے ساتھ خصوصی طور پر یہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ غیر دستاویزی افغان شہریوں کے ساتھ بصورت دیگر سلوک کرے۔ ہر ملک دوسرے ممالک کے شہریوں کی منظم آمدورفت چاہتا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو شاندار قرار دیتے ہوئے انہوں نے ترکیہ اور پاکستان کے درمیان روابط اور تعاون کو بڑھانے پر زور دیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کو بحال کیا جا سکتا ہے، جو تمام اقوام اور پورے خطے کو بہت سے مواقع فراہم کرے گا۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا (تاپی) جو اربوں ڈالر کا توانائی کوریڈور ہے، کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مبینہ عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان کی توجہ طویل عرصے سے زیر التوا منصوبے سے فوائد حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ تاپی کے حوالے سے ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ بھارتی معیشت کو توانائی کی سستی اور پائیدار فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس پورے انتظامات کے فائدے سے باہر رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو وہ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ یا اس کے بغیر، ترکمانستان کی گیس کو اس خطے کے معاشی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔7 ارب ڈالر کے اس منصوبے کا مقصد ترکمانستان کے گلکنیش اور ملحقہ گیس فیلڈز سے قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچانا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اس منصوبے میں سہولت اور تعاون فراہم کر رہا ہے، جس میں 56 انچ قطر کی 1,680 کلومیٹر (1,044 میل) پائپ لائن بچھانے کی تجویز ہے جس کے ڈیزائن کی گنجائش 33 ارب مکعب میٹر سالانہ قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے پاک بھارت سرحد تک پہنچائی جائے گی۔ وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنا ہوگا۔ دریں اثناءنگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سعودی عرب کے تین روزہ سرکاری دورہ پر ریاض پہنچ گئے۔ کنگ خالد ایئرپورٹ پر ریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمن بن عبدالعزیز، سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق اور اعلی سعودی حکام اور پاکستانی سفارتی عملے نے استقبال کیا۔ وزیرِاعظم اسلامی تعاون تنظیم کے فلسطین کی حالیہ صورتحال پر منعقدہ ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ علاوہ ازیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بی آر آئی منصوبے سے چین، پاکستان سمیت پورا خطہ ترقی کرے گا۔ سی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ چین کی ترقی منفرد اور بےمثال ہے، چین نے تیزی سے اپنے عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے، چین نہ صرف ہمارا بہترین پڑوسی ملک بلکہ آئرن برادر ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے ترقی کی نئی منازل طے کی ہیں، پاکستان چین کے ساتھ سی پیک کے پہلے مرحلے کو مکمل کر چکا ہے، سی پیک منصوبے سے ملک کیلئے ترقی کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں سے ملک میں روزگار کے وسیع مواقع میسر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی آر آئی منصوبہ مختلف ثقافتوں کو قریب لانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عالمی برادری کے تمام ارکان اور ذمہ دار حکومتوں سے غزہ اور مغربی کنارے میں تشدد کے فوری خاتمے میں مدد کا مطالبہ کیا ہے۔یہاں فلسطینی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انسانی ہمدردی کی راہداری کو کھولا جانا چاہیے کیونکہ زخمیوں کو علاج،پینے کے پانی کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ خوراک کی قلت کو دور کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ادویات، خوراک، پانی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ یہ عام انسان ہیں۔وزیر اعظم غزہ اور مغربی کنارے دونوں میں اسرائیلی قابض افواج کی جارحیت کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کی مخدوش صورتحال پر تبادلہ خیال کیلئے منعقدہ او آئی سی کے غیر معمولی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ انسانی تصور سے باہر ہے کہ 21ویں صدی میں ایک انسانی آبادی کو ایسے وحشیانہ اور غیر انسانی تجربات سے کیسے گزرنا پڑا،اسے روکنا چاہیے اور دنیا بھر میں ہر ایک کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم یہاں انسانوں کی بات کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ اگر آپ شکار کی مہم پر جاتے ہیں اور آپ 21 ویں صدی میں جانوروں کو مارنا چاہتے ہیں، تو آپ کو کچھ اصول و ضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی عالمی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر ریاست کو ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر بین الاقوامی انسانی قانون اور دیگر قوانین کے مطابق اپنا طرز عمل اختیارکرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دفاعی کمزور لوگوں پر فوج کی طاقت کا استعمال بالکل ناقابل قبول ہے۔

ای پیپر-دی نیشن