سینٹ: دہشت گردی پر ان کیمرہ بریفنگ دی جائے، اسحاق ڈار: آئی ایم ایف معاشی دہشت گردی کررہا، رضا ربانی
اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ میں نگران وزراءکی عدم موجودگی پر چیئرمین سینٹ نے ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کو خط لکھا جائے۔ وہ وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزراءکو ایوان میں اپنی حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایت کریں۔ کوئی سابق وزیر مشیر یا معاون خصوصی سرکاری گاڑی گھر لے کر نہیں گیا۔ گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ نگران وزراءکو وقفہ سوالات کے دوران ایوان میں موجود ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ 50فیصد سینیٹرز موجود نہیں۔ سینیٹر زرقا تیمور سہروردی نے پی آئی اے کی حالت زار تشویش ناک، کبھی پی آئی اے ہمارا فخر تھا۔ پی آئی اے نے گلف سمیت دیگر ممالک کی ایئرلائینز کو بنایا۔ انہوں نے کہاکہ پی آئی اے میں غیر ضروری بھرتیاں کرکے اس کے بازو کاٹ دیئے۔ سینیٹر زرقہ سہروردی تیمور، شہادت اعوان اور کامران مرتضیٰ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے غیر معمولی صورتحال میں پرائیویٹ وکلا کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ لا افسران کی تعیناتی کا معاملہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے تاکہ اس پر تفصیلی غور کیا جا سکے۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ لا افسران 20،20 مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں اور ان کو معاوضہ بھی ان کی محنت کے برابر نہیں ملتا۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرامند تنگی نے کہاکہ وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کی گریڈ 20 اور بالا افسر کی مراعات اور تنخواہوں کی تفصیلات مانگی تھیں۔ وزیر پارلیمانی امور نے کہاکہ اس بارے میں معلوم کرکے ایوان کو آگاہ کرتا ہوں ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا دہشت گردی کے معاملے پر ان کیمرہ بریفنگ لی جانی چاہئے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بلایا جائے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ ہماری حکومت نے ضرب عضب شروع کیا۔ یہ وقت تھا جب کراچی میں لوگ دن دیہاڑے لٹ رہے تھے۔ 2013 کے بعد دہشت گرد کارروائیوں میں کمی آئی۔ 2018 کے بعد پالیسی میں تبدیلی آئی، افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو ہمارے ذمے دار وہاں پہنچے۔ ہم ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف معنی خیز ایکشن نہیں لے سکے تھے۔ ہم نے پالیسی پر یوٹرن لیا اور سخت دہشت گردوں کی رہائی کے بعد ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ مہاجرین کے معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا۔ سی پیک بھی ان واقعات کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک معاشی دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ آرمی تنصیبات پر حملے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپسی سے جڑے ہیں۔ اس کی اس وقت کی سیاسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ذمے داری لینی ہو گی۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہاکہ بلوچستان میں کانگو کی صورتحال خراب ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں چیک پوسٹیں بھتے کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یومیہ ان چیک پوسٹوں کے ذریعے تیس کروڑ بھتہ لیا جارہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ بہت سے بل ایوان میں پاس ہوجاتے ہیں‘ لیکن صدر مملکت کے پاس دستخط کےلئے نہیں پہنچتے، ایسے بل جو یہاں سے منظور ہوتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں اس کےلئے گمشدگی کا اشتہار نکالا جائے اور پتہ کرائیں کہ یہ بل کہاں گم ہوگیا۔ بلوں کے گمشدہ ہونے سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے سیکرٹری سینٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہاکہ جو حالات پی آئی اے کے ہیں وہی حالات پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنیئر کوچ کو نظر انداز کرکے خیبر پی کے سے جونیئر شخص کو کوچ نگا دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا نوابشاہ کے قریب المناک ٹرین حادثے میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے توجہ دلاﺅ نوٹس ایجنڈا پر موجود تھا۔ ان کی عدم موجودگی پر چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی نے توجہ دلاﺅ نوٹس مو¿خر کر دیا۔ اجلاس پیر دوپہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔