• news

غزہ، جنگ بند کی جائے: او آئی سی، عرب لیگ کا مطالبہ

ریاض (نوائے وقت رپورٹ) فلسطین پر اسرائیل کے بے رحم حملوں کے خلاف او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ ہنگامی اجلاس ریاض میں ہوا۔ ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ قطر اور کویت نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ جبکہ ترکی اور انڈونیشیا نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں جانے کی تجویز دی۔ اجلاس سے خطاب کرتے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غزہ کا محاصرہ ختم اور فوجی آپریشن بند کئے جائیں۔ غزہ پر مربوط اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انسانی امداد کی رسائی دی جائے ۔ غاصب قوت فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی ذمہ دار ہے۔ غزہ پر جنگ کو مسترد کرتے ہیں۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ مارچ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر اتفاق کے بعد سے یہ ایرانی صدر کا پہلا دورہ سعودی عرب ہے۔ اس موقع پر ابراہیم رئیسی نے فلسطین کا روایتی سکارف کیفیہ بھی پہنا ہوا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے افتتاحی خطاب کیا۔ مشترکہ عرب، اسلامی اجلاس غزہ میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات کے تناظر میں منعقد ہو رہا ہے، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ہم غزہ میں جنگ کو مسترد کرتے ہیں، ہم یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، غزہ کا محاصرہ ختم اور انسانی امداد کی اجازت دی جائے۔ سیکرٹری جنرل اوآئی سی حسین براہیم طہٰ نے کہا کہ معصوم فلسطینیوں کا قتل عام بند کیا جائے، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ ہے کہ وہ ہمیں ختم کر دے گا۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، میرا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل پر بے حد افسردہ ہے۔ اسرائیلی جارح فورسز کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں لایا جائے۔فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ مجھے زیادہ افسوس عالمی برداری کی بے حسی پر ہے، امریکہ سمیت عالمی برادری کو خطے میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا، سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی بربریت رکوانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ غیرمسلح فلسطینیوں کی حفاظت کیلئے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج طاقت کے نشے میں دو ریاستی فارمولے کو بھلا چکا ہے۔ غزہ کی پٹی ریاست فلسطین کا لازمی جزو ہے، غزہ میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ 20 ارب ڈالر کا نقصان بھی ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو اپنے جنگی جرائم کا حساب دینا ہو گا۔ محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل نے دو ریاستی حل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی عوام اسرائیل کی جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی ناکامی کا ذمے دار امریکہ ہے‘ ہمارے لوگوں کو نسل کشی کی جنگ کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے زیرقبضہ زمین کے اصل حق اور فلسطینی ہیں۔ فلسطین اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لیکر جائے گا۔ سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی بربریت رکوانے میں ناکام ہو گئی۔ اسرائیل کو اپنے جنگی جرائم کا حساب دینا ہو گا۔ غیر مسلح فلسطینیوں کی حفاظت کیلئے عالمی برادری کردار ادا کرے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے اور اپنی سرزمین کا تحفظ کرنے والی حماس کو قابضین جیسا نہ سمجھا جائے۔ اجلاس سے خطاب میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھاکہ ہم فلسطین کاز کیلئے واضح حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیل اسکول، پناہ گزین کیمپ اور دیگر مقامات پر بدترین بمباری کر رہا ہے، شرمناک اقدامات کئی دہائیوں سے بار بار دہرائے جا رہے ہیں، اسرائیلی قابض فوج اور غیر قانونی آبادکاروں کے اقدامات ناقابل قبول ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ غزہ پر اسرائیلی بمباری پر پوری دنیا کی خاموشی شرمناک ہے۔ غزہ میں بچوں کی بکھری لاشیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن غزہ میں ہزاروں اموات پردنیا میں کسی نے انگلی بھی نہیں اٹھائی، اسرائیل اور اسرائیلی حکام کو غزہ میں جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے اسے اس کی قیمت چکانا ہو گی۔ فلسطین کو حل کئے بغیر اسرائیل سے معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔ غزہ میں عارضی وقفہ کوئی حل نہیں مستقل جنگ بندی ہونی چاہئے۔ فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہیں گے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پر اتنی بمباری کرچکا ہے جو سات ایٹم بم کے برابر ہے، خطے میں ہونی والے تمام کارروائیوں میں امریکا کا ہاتھ ہے اسی نے اسرائیلی مظالم کے لیے راہ ہموار کی، ہمیں اسرائیل کے جنگی جرائم کا مقابل کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہمیں غزہ کے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ فلسطین امت مسلمہ کے فخر کا نشان ہے، اسرائیل غزہ میں بمباری کے ذریعے نئی نسل کو ختم کررہا ہے وہاں ہونے والا ظلم تمام عالمی قوانین کا مذاق اڑا رہا ہے۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے۔ شہید خواتین کا کیا قصور ہے؟ ہمیں بتایا جائے شہید ہونے والے بچوں کا کیا قصور ہے؟ ایرانی صدر نے کہا کہ امریکا فاشسٹ ملک ہے جو اسرائیل کی حمایت کرکے اسرائیل کے ساتھ جنگی جرائم میں شریک ہورہا ہے، وہ غزہ کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیار اور رقومات فراہم کر رہا ہے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی فوج ہسپتالوں پر بھی بمباری کر رہی ہے۔ امداد کی راہداری دیں، فوری جنگ بندی کی جائے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم غزہ جا کر اسرائیلی دعو¶ں کی تحقیقات کرے۔ غزہ میں مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کو جنگی جرائم پر عالمی عدالت انصاف لیکر جانا ہو گا۔ قطر یرغمالیوں کی رہائی کیلئے ثالثی کر رہا ہے۔ امید ہے غزہ پٹی پر جلد انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ ہو گا۔ انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ کے جنگی جرائم پر عالمی عدالت میں جانا ہو گا۔ اسرائیل سے کہتے ہیں غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ مہذب دنیا کی غزہ میں مظالم پر خاموشی معنی خیز ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملے کے بعد دنیا کا امن خطرے میں ہے۔
ریاض + اسلام آباد (ممتاز احمد بڈانی + امیر محمد خان + نوائے وقت رپورٹ) عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے اور استدلال کو مسترد کر تے ہوئے فوری جنگ بندی اور امدادی کارورائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب اسلامی مشترکہ سمٹ سربراہ کانفرنس اختتامی اعلامیہ میں غزہ کے اندر جاری اسرائیلی جنگ اور بمباری کو فوری روکنے کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ عرب ملکوں اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی مشترکہ سربراہی کانفرنس سعودی عرب میں میزبانی میں ہفتے کے روز منعقد کی گئی۔ اعلامیے میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، علاقے میں انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں شریک مسلم وعرب دنیا کے سبھی سربراہان نے دوٹوک اور متفقہ انداز میں غزہ پر اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی جنگ کو مسترد کر دیا اور کہا ہے اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع کا دعویٰ کوئی جواز نہیں رکھتا۔ مشترکہ سربراہ کانفرنس نے اپنے جاری کردہ اعلامیہ میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ اعلامیہ میں اسرائیل کی طرف سے ایک ماہ سے زائد عرصے پر محیط اور جاری بمباری کو غیر انسانی اور فلسطینیوں کے قتل عام کا نام دیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ انسانی بحران کے خاتمے میں عالمی برادری ناکام ہو چکی ہے۔ غزہ میں نہتے شہریوں پر حملوں کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم اور زیادتی کی ذمہ دار قابض افواج ہے۔ ریاض میں عرب، اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ولی عہد نے تمام شرکا کی آمد پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’آج عرب اور اسلامی ممالک کے وفود یہاں موجود ہیں اور ہم سب اپنے فلسطینی بھائیوں کے خلاف ہونے والی اس جنگ پر سخت احتجاج کرتے ہیں‘۔ ہم نے عسکری کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے اور محصور افراد کے انخلا کے علاوہ شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں‘۔ اس بحران کو روکنے کے لیے ہم سے مشترکہ کوششیں، یکجہتی اور یکساں پالیسی اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ریاض میں منعقدہ مشترکہ عرب و اسلامی غیرمعمولی سربراہ اجلاس میں شرکت کی۔ نگران وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی اور سیکرٹری خارجہ بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ اجلاس میں شریک تھے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں اور غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے کو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مقانی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اسرائیلی افواج فلسطین میں بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی افواج کا مسلسل اور بلاتفریق نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے جنگی جرائم کیلئے اس کا محاسبہ کرے‘ اسرائیل کے مظالم اور ریاستی دھشتگردی کی اس مہم کو فوری طور پر روکا جائے۔ نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ فوری طور پر غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محاصرے کو ختم اور غزہ کے لوگوں تک امداد کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس تنازعے اور فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت کی بنیادی وجہ نو آبادیاتی سوچ اور فلسطینیوں کو حقِ خود ارادیت دینے سے انکار ہے۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بہن بھائیوں اور ان کے حقِ خود ارادیت کے حصول کیلئے ان کے ساتھ بھرپور یکجہتی اور حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ نگراں وزیرِ اعظم نے جون 1967ءسے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کے بطور دارلخلافہ کے ساتھ ایک خودمختار، پائیدار، محفوظ اور یکجا فلسطینی ریاست کے فوری قیام کو خطے میں دیر پا امن و سلامتی کی ضمانت قرار دیا۔پہلے اقوام متحدہ نے اپنی منظور کردہ قرارداد کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کا فیصلہ کیا۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہسپتال، سکول اور اقوام متحدہ کے دفاتر بھی محفوظ نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں فوری طور پر انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ غزہ کو امداد فراہم کرنے کے حوالے سے مصر کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری غزہ میں فوری سیز فائر کے لئے کردار اداکریں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جنگ بندی کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ سلامتی کونسل پر غزہ میں قتل عام رکوانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دریں اثناءنگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سعودی عرب کے وزےراعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جاری مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی جس میں حالیہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے ولی عہد شہزادہ کی مدبرانہ قیادت میں فلسطینی کاز کو فروغ دینے کے لیے مملکت سعودی عرب کے کردار اور کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر مشترکہ عرب اسلامی اقدام کے لیے سربراہی اجلاس بلانے کے بروقت اقدام پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماو¿ں نے اسرائیل کو محصور اور معصوم فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ اور اندھا دھند جارحیت سے روکنے کے لیے فوری بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں نے باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری کے لیے پاکستان سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ علاوہ ازیں غزہ کی صورتحال پر سعودی عرب میں جاری او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی اجلاس پر حماس کا ردعمل سامنے آ گیا ہے۔ حماس کے سینیئر رہنما اور ترجمان اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ عرب اور مسلم رہنماو¿ں کو تین باتوں، نکات پر توجہ دینی چاہیے۔ اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کی نسل کشی رکنی چاہیے، غزہ میں انسانی امداد، طبی امداد اور ایندھن بھیجا جائے۔ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کے حقوق کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔ اسامہ حمدان کا مزید کہنا تھا کہ امن عمل تین دہائیوں سے اسرائیلی ضروریات پر مرکوز رہا، اس لیے امن عمل ناکام رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامی ممالک اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کریں۔

ای پیپر-دی نیشن