فوج مخالف بیانیہ اور انتخابات
انتخابات جمہوری نظام کی جڑ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام اپنی پسند کی قیادت کاچناﺅ کر کے ملکی معاملات کو عوامی خواہشات اور ملکی استحکام میں بہتری لانے کے غرض سے آئینی لحاظ سے ایک معینہ مدت کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ حالیہ سیاسی اور معاشی بحران سیاسی کشمکش ، بہتان طرازی ،اور سیاسی جوڑ توڑکا نتیجہ ہیں جو کہ 9 اپریل 2022 ءمیں عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد کی صورتحال سے رونما ہوئے ہیں، علاوہ ازیں تباہ کن سیلاب، ادائیگیوں کے بحران اور سیاسی افراتفری کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال تشویشناک حد تک سنگین ہو گئی۔
پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ سیاسی بحران کا شکار رہی اور مشکل سے مشکل ترین حالات میں ٹوٹتی سانسیں غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے جڑتی بھی رہی ہیں ، جمہوریت کی خواہش اور اسے معنی خیز بنانے کیلئے اختیار تک رسائی ، اقتدار میں شمولیت اور شراکت داری ایک یقینی امر ہے ، مختلف ممالک جیسے ایران، شمالی کوریا چین ہے ان کی سماجی ، سیاسی اور تاریخی حوالے سے جس شکل میں بھی جمہوریت قائم ہے اسے پنپنے کا حق بھی حاصل ہے ، لیکن پاکستان میں جمہوری ادارے ، الیکشن کمیشن اور دوسرے وسائل کے ہوتے ہوئے بھی جمہوری تاریخ انتہائی زخم خوردہ ہے اور پنپنے کے حق سے محروم ہے، فوج کے خلاف ملک کی نوجوان نسل میں بے چینی کو الیکشن 2018 ءسے پہلے اور بعد میں اقتدار میں آئے گروہ نے خوب ابھار کر اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فوج مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
الیکشن کمیشن نے حالیہ انتخابات 8 ، فروری 2024 ءکو منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے ، لیکن عوامی حلقوں میں انتخابات کے منعقد ہونے پر شکوک و شبہات بدستور پائے جاتے ہیں۔ دورانِ اقتدار پی ٹی آئی کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے کا بیانیہ بڑے شد و مد سے بیان ہوتا رہا ، لیکن عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے باہر ہوتے ہی فوج مخالف بیانیہ اپنا لینا مخصوص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
9، مئی کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی کا سنگین الزامات پر مبنی فوج مخالف پروپیگنڈا شدت اختیار کر چکا ہے ، رواں سال مئی میں رہائی کے بعد عمران خان نے فوج کو سیاست میں آنے کیلئے سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ ، نیب اور ہینڈلر ز کو ضمیر بیچنے والے قرار دیا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے عمران خان کے حامی اور پارٹی کارکنان فوج پر بے دریغ الزامات لگا رہے ہیں ، معروف اینکر پرسن معید پیرزادہ نے سوشل میڈیا پر چیف آف آرمی سٹاف کا نام لے کر بہت گھنا?نے الزامات لگائے ہیں،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات کو فوج مخالف بیانیہ کے ساتھ متنازع بنانے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے ،سرِ دست ملک کی سیاسی اکائیوں نے نگران حکومت کے اس فیصلے کو قبول کر لیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے، لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کا جارحانہ رویہ ابھی تک نہیں بدلا اور حقیقت سے پہلو تہی کی جا رہی ہے، پی ٹی آئی قیادت نے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اجتماعی استعفے دے کر ایک سیاسی غلطی کی جسے پی ٹی آئی کے کارکنان فراموش کر رہے ہیں اور الزام کی سیاست جو 2014 ءسے عمران خان نے شروع کی تھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں۔
عہدِ رفتہ کے تجزیہ کے مطابق الیکشن 2024 ئ ملکی استحکام اور معیشت میں بہتری لانے کے بجائے انتشار پیدا کرنے کا سبب بنیں گے ، پارلیمنٹ میں کسی سیاسی جماعت کے پاس واضح اکثریت نہیں ہوگی اور پارلیمنٹ معلق رہے گی۔ سیاسی بحران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سڑکوں پر دیکھا جا سکے گا کیونکہ پی ٹی آئی قیادت واضح اور دو تہائی اکثریت کی دعویدار ہے۔ اسکے بر عکس وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے ، پی ٹی آئی قیادت نے اپنے کارکنوں کو ملک کے سب سے بڑے سلامتی کے ادارے کے مدِ مقابل کھڑا کر کے ملک کو انتہائی نازک صورتحال میں جکڑ دیا ہے۔لہذا ایسی صورتحال کڑے احتساب کی متقاضی ہے ، 9 ، مئی کے واقعات کی تحقیقات انتخابات سے قبل ہونا بہت ضروری ہیں، ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کےلئے فوج کو بدنام کرنے والوں کا احتساب قبل از انتخابات ہونا ہی شفاف انتخابات کی دلیل بن سکتا ہے ورنہ معلق پارلیمنٹ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہو گی ، اور عوام کی نظروں میں انتخابات اپنی قانونی حیثیت کو برقرار نہ رکھ سکیں گے ،کیونکہ جیسے جیسے انتخابات نزدیک آتے جائیں گے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شدت اختیار کر تا جائے گا۔ عوام کے دلوں میں نفرتیں ابھریں گی ، اس عدم تشدد کی فضاء میں کئی جانوں کے ضیاع کا قوی امکان ہے۔
دوسری جانب ملک کی معاشی حالت ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے ، ملک ڈیفالٹ ہو تا ہے یا نہیں ، لیکن ملک کی معیشت مستحکم نہیں، ایسی صورتحال میں الیکشن کے انعقاد پر تقریباً 60 ارب روپے کا خرچہ براہ راست عوام ٹیکسوں کی صورت میں ادا کریں گے ، اور الیکشن 2024 ءکے نتیجے کے وجود میں آنے والی حکومت اتنی صلاحیت کی حامل نہیں ہوگی کہ وہ ملکی معیشت کو بحال کرسکے۔
انتخابی نظم وضبط کے دائرے میں نظام ِ کو مضبوط کرنے اور عوامی توقعات کو صحیح معنوں میں ترجیح دینے کے ساتھ انتخابی عمل کے دوران ابھرتے ہوئے عوامی جذبات کو مدِ نظر رکھ کر معروضی اور سیاق وسباق پر مبنی انتخابات کا انعقاد ملکی استحکام کےلئے لازم و ملزوم ہے۔ سماجی ، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر کے تحت انتخابات ملک کی سلامتی کا مظہر بن سکتے ہیں ، لیکن منفی سوچ اور اداروں کےخلاف بد اعتمادی کی فضاءمیں انتخابات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گے ، فوج مخالف بیانیہ کے ہوتے ہوئے ملک میں انتخابات انتشار کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے ، لہذا ملکی معیشت میں بہتری اور سیاست میں روداری غیر جانبدارانہ احتساب سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
٭....٭....٭