انتخابات 2024ءاور سیاسی سرگرمیاں
”کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے“۔ عدالت عظمیٰ کے حکم سے صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کی بیٹھک کے بعد آئندہ عام انتخابات کیلئے 8 فروری کی حتمی تاریخ طے پا چکی۔ اِس سے پہلے یہ ملاقات صدرِ مملکت کی شدید خواہش کے باوجود عمل میں نہ آ سکی تھی حالانکہ دونوں کے دفاتر بمشکل ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ اب’اگر مگر‘ اور ’لیکِن ویکِن‘کی تواتر سے دہرائی جانیوالی گردانیں اور پراسراریت کے پردوں میں لپٹی افواہیں اپنی حیثیت کھو چکی ہیں۔ تمام متعلقین کا وہم یقین میں بدل گیا ہے۔ وہم کو یقین میں بدلنے کا سہرا یقیناً موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کو جاتا ہے۔
پی ٹی آئی تو کے پی کے اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کروانا چاہ رہی تھی مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کروانے کی خواہش رکھتا تھا۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے الیکشن شیڈول بھی خود جاری کر دیا تھا۔ یہ حکم اپنے نئے پن اور دلچسپی سے معمور ہونے کے باوجود نافذ العمل نہ ہو سکا اور یوں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی.قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تو الیکشن کمیشن نے دستور کے مطابق انتخابات 90 دن کی بجائے نئی مردم شماری کے مطابق از سرِ نو حلقہ بندیوں کے بعد کرانے کا عندیہ دیا۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم حکومت کی انتہائی 'ماٹھی' کارکردگی اور مقبولِ عام بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کے حامی تھے جبکہ پی ٹی آئی حسبِ معمول اپنی پوزیشن بہتر ہونے کا دعویٰ کرنے کی بنا پر الیکشن کا فوری انعقاد چاہتی تھی۔ آصف علی زرداری کے برعکس بلاول بھٹو زرداری آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے مطالبے کا اعادہ کرتے رہے۔ کچھ لوگوں نے اسے باپ اور بیٹے کے درمیان کھلا اختلاف بھی قرار دیا مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا.
عام انتخابات کےلئے 8 فروری پر ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن میں اتفاق ہونے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نگرانوں کی نگری میں 'لیول پلیئنگ فیلڈ' کی اصطلاح کے استعمال میں تیزی لے آئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرح وہ اکثر و بیشتر یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی طرح ان کو بھی لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے۔ کبھی نون لیگ کی طرف سے بھی تواتر کے ساتھ اِسی طرح کی باتیں، شکایتیں اور گلے شکوے کئے جاتے تھے مگر اس وقت ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل سکی تھی۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ جو بویا ہوتا ہے، وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سانحہ 9 مئی کے بعد یہ عمل تیزی سے دہرایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت جیل میں ہے۔ ان پر مختلف قسم کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ پارٹی تتر بتر ہوتی دِکھ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی اننگ کھیل چکی ہو۔ قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ ووٹ بنک میں اضافہ ہونے کے باوجود اگلی باری اس کو نہیں ملے گی۔ فی الوقت وہ اسی مقام پر اسی طرح بے یار و مددگار کھڑی ہے جس مقام پر نون لیگ 2018ءمیں کھڑی تھی۔ دونوں کی ہیئت ترکیبی بدل چکی ہے.
ہیئت ترکیبی کے ساتھ ساتھ ہیئت ترتیبی میں بھی فرق آ گیا ہے۔ اب کوئی ایک جماعت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ لے دے کے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد جو ہمیشہ پی ٹی آئی کے شانہ بشانہ چلنے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکا کرتے تھے، چلہ کشی کے بعد اسے داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ اپنے آخری ویڈیو پیغام میں انہوں نے 9 مئی کے سانحہ کو لعنتی، گندہ اور پراگندہ پروگرام کہہ کر پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں۔ اپنی سیاسی بقا اور پی ٹی آئی کی قیادت کو خوش رکھنے کی کوشش میں شیخ رشید احمد جو کبھی اپنی آنکھوں سے نکلنے والی زہرآلود شعاو¿ں اور زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کے شعلوں سے سیاسی مخالفین کے لتے لیتے رہتے تھے، اب پس منظر میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے اکابرین کا آزمائش کی کٹھن گھڑیوں میں ثابت قدمی پہ ڈٹے رہنے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت زیادہ دباو¿ میں ہونے کے باوجود 2018ءکے انتخابات سے قبل نواز لیگ کے لیڈروں نے اِس طرح پارٹی کو داغ مفارقت نہیں دیا تھا جیسے 'بیباکانہ' انداز میں پی ٹی آئی کے رہبروں نے حال ہی میں، یعنی 2024ءکے عام انتخابات سے پہلے پارٹی کو خیر باد کہہ کر اور دو نوزائیدہ جماعتوں میں شمولیت اختیار کرکے دیا ہے۔ مثال کے طور پر 2018ء کے الیکشن میں راولپنڈی سے مسلم لیگ نواز کے ایک لیڈر نے بھی پارٹی سے جفا نہیں کی تھی۔ انجینئر قمر السلام اور حنیف عباسی پر سنگین نوعیت کے مقدمات قائم ہوئے، انہیں گرفتار کیا گیا اور الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار بھی دیا گیا مگر ان کے پایہء استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہیں آ سکی جبکہ اِسی ضلع سے عامر محمود کیانی، فیاض الحسن چوہان، غلام سرور خان، صداقت علی عباسی اور شیخ راشد شفیق نے پی ٹی آئی کو بائے بائے کہہ دیا ہے۔شاہ محمود قریشی ابھی تک پابند سلاسل ہیں اور وہ تا حال کسی ٹی وی چینل کو 'خصوصی انٹرویو' دینے کیلئے راغب نہیں ہو سکے۔ ایک دفعہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی کے بارے میں سپیکر اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا تھا، "جتنا ہم جانتے ہیں فاضل ممبر ملتان کو، اتنا تو آپ نہیں جانتے ہو۔ خان صاحب جب پہچانیں گے کہ یہ کیا چیز ہے تو انہیں لگ پتہ جائیگا" مگر شاہ محمود قریشی ثابت قدم ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ممکنہ نااہلی کی صورت میں قریشی صاحب پارٹی کو زیرِ دام لانے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ بعینہ یہی بات چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں بھی کہی جا رہی ہے.صدرِ مملکت نے نگران وزیر اعظم کو سیاسی لوگوں کی وابستگیاں اور وفاداریاں بدلنے پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو بنیادی حقوق اور لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کےلئے مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔ مسلم لیگ کی ایم کیو ایم، جمعیت علماءاسلام اور باپ پارٹی سے اتحاد کی خبریں چل رہی ہیں۔ پی پی پی، پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اشارہ دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، آئندہ دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ تاہم یہ اٹل حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے سیاسی تعلق میں کوئی گرمجوشی نہیں آ سکے گی کیونکہ مسلم لیگ کی قیادت پی ٹی آئی کی قیادت پر کسی معاملے پر بھی کوئی اعتبار کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔
٭....٭....٭