پردے کے احکام (۱)
ہر مذہب میں کچھ احکامات ایسے ہوتے ہیں جو اس کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیا کے تما م مسائل خواہ وہ انفرادی ہو ں یا اجتماعی ، نجی ہو ں یا پھر معاشرتی غرض یہ کہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے ۔ ایک فرد ایک معاشرہ ، ریاست اور مذہب کے بہتر ہونے کا ثبوت اس میں موجود اخلاقی اقدار سے ظاہر ہوتا ہے ۔ پردہ کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس سے اخلاقیات کی تعمیر ہوتی ہے اور پردہ بے شمار برائیوں کو روکنے کا ذریعہ بنتا ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی تمام مذہبی اقدار اور احکام کو احسن طریقے سے ادا کریں ۔ قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر پردے کے احکام موجود ہیں ۔
پردے کے حکم کا آغاز آپ ﷺ کے گھرانہ مبارک سے ہی کیا گیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
” اے نبی ﷺ کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم لہجے میں بات نہ کیا کرو ایسا کرنے سے دل کی خرابی میں مبتلا شخص خوامخوا ہ کوئی غلط امید لگا بیٹھے گا لہٰذا اس سے عام دستور کے مطابق با ت کیا کرو اور اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھہری رہو اور دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کرو “۔
ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے معاشرے میں پردے کا رواج نہیں تھا ۔ اللہ تعالی نے اصلاح کا آغاز آپ ﷺ کے گھر سے ہی کیا کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے پوری امت مسلمہ کے لیے اسوئہ حسنہ بنا کر پیش کرنا تھا ۔
ارشاد باری تعالی ہے:” اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو ۔ اور اگر تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو “۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے ان لوگوں پر پابندی لگا دی جو بغیر اجازت آپ ﷺ کے گھر میں داخل ہو جاتے تھے ۔ اور اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد امہا ت المﺅمنین نے اپنے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے ۔ اور اس عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی عمل نبوی کی پیروی کرتے ہوئے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے۔ پردے کے حکم کے بارے میں اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا :” اے نبی ﷺ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دو کہ وہ جب باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر ڈال کر گھونگھٹ نکال کر باہر نکلا کریں ۔ یہ امر ان کے لیے موجب شناخت ہو گا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا©“ ۔