فوج کو بھی بولنے کا حق دیں (1)
پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ موجودہ دور کا سولجر جنگِ عظیم والا سولجر ہرگز نہیں ۔موجودہ دور کا پاکستانی سولجر بہت باشعور اور معقول حد تک پڑھا لکھا ہے۔ میں یہ کالم لکھنے پر اس لیے مجبور ہوا ہوں کہ میرا روزانہ سولجرز سے رابطہ ہوتا ہے ۔وہ اکثر مجھ سے مختلف موضوعات پر بشمول سیاست بحث کرتے ہیں اور میں انھیں بہت باشعور ،حالاتِ حاضرہ سے مکمل طور پر واقف اور بحثِ مباحثہ میں بہت مدلل پاتا ہوںکچھ تو عام آفیسرز سے بھی زیادہ باشعور ہیں۔انگریز دور میں فوجیوں کو تین چیزوں پر بات چیت کی پابندی تھی۔اول مذہب ،دوم سیاست اور سوم عورت۔قانون اب بھی وہی ہے لیکن موجودہ دور کا سولجر اخبار باقاعدگی سے پڑھتا ہے۔ٹی وی باقاعدگی سے دیکھتا ہے۔ٹی وی پر خبریںاور تجزیے سنتا ہے اور اپنی رائے قائم کرتا ہے ۔ وہ فوج کا قومی ترقی میں کردار، سیاستدانوں کا کردار اور اپنے وطن کے مستقبل کے متعلق ایک عام تعلیم یافتہ شہری کی طرح سوچتا ہے، لہٰذا اسے ان پڑھ شہری سمجھ کر قومی ترقی اور معاشرتی ترقی سے دور رکھنا قومی جرم ہوگا۔وہ بھی بولنے کی اجازت چاہتا ہے۔
پاکستان ٹوٹ گیا۔ مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ آزادی کے بعد زیادہ تر حکومت فوج کے ہاتھ میں رہی۔ فوج بار بار آئین توڑنے کی مرتکب ہوئی۔ جب دل چاہتا ہے مارشل لاءلگا کر حکومت پر قابض ہو جاتی رہی ہے۔ یہ ہیں وہ الزامات جو کچھ لوگ فوج کے خلاف عوام کے ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ سرزمین پاکستان سے لے کر آسمان تک جو بھی برائیاں ہیں وہ سب فوج کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور ظاہر ہے اس پروپیگنڈا کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کارفرما ہوتا ہے جو آپ لوگ بخوبی سمجھتے ہیں۔ بطور ایک ذمہ دار شہری کے میں اس رائے کا احترام کرتا ہوں لیکن بد قسمتی سے حقائق وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔ یہ پیش کرنے والوں کی کاریگری ہے کہ وہ کسی حقیقت کو کس انداز میں پیش کرتے ہیں۔ بہر حال انصاف کا تقاضا ہے کہ فوج کی بھی سنی جائے جو میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
فوج کا المیہ یہ ہے کہ اسے بولنے یا رائے دینے کی اجازت نہیں، نہ ہی اس کی مرضی سے کوئی سیاسی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ فوج تو اتنی مجبور ہوتی ہے کہ وہ اپنے خلاف پرو پیگنڈے کا جواب بھی دینے کی مجاز نہیں۔ فوج کی اس خاموشی سے بعض اوقات لوگ نا جائز فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔ بہر حال اس غیر ضروری بحث میں پڑے بغیر آئیں ذرا حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1947 ءسے پہلے جس طرح باقی مسلمانوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی اسی طرح فوج بھی مصروف عمل رہی اور اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ آزادی کے بعد ایک لنگڑی لولی فوج پاکستان کے حصے میں آئی۔ آفیسرز نہ ہونے کے برابر تھے۔ ٹیکنیکل لوگ نہ تھے۔ سامان حرب بھارت نے روک لیا اور سب سے بڑھ کر پاکستان پہنچتے ہی فوج کو بے سروسامانی کی حالت میں کشمیر کی جنگ لڑنی پڑی۔ اس وقت فوج کو تنظیم نو اور ہتھیاروں کی سخت ضرورت تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے نہ ہو سکی۔ فوج کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل فرینک میسروی کو کہنا پڑا کہ’ آج مشرقی پنجاب کے سویلین سکھ پاکستان فوج سے بہتر مسلح ہیں۔‘ اسی دوران افواج پاکستان کی تنخواہیں کم کر دی گئیں اور یہ عمل تقریباً تین سال جاری رہا۔ فوج ابھی اس عمل سے گزر رہی تھی کہ فوج کی نفری کم کرنے کا حکم ملا اور وسیع پیمانے پر چھانٹی ہوئی۔ لوگوں کو اندھا دھند گھر بھیجا گیا۔ انداز ا ًایک لاکھ خاندان اچانک بے روزگار ہو گئے۔
فوج کی تنظیم نو سے اس حد تک بے پروائی برتی گئی کہ 1955ءمیں پاکستان کے پاس محض دو ٹینک رجمنٹس قابل سروس رہ گئیں جن کی بقیہ کل سروس 50 گھنٹوں سے زیادہ نہ تھی۔ وزارت دفاع میں جو بھی فائل جاتی اول تو واپس نہ آتی اگر آتی تو عمل کا وقت گزر چکا ہوتا۔ اس سرد مہری کی وجہ سے فوج کی تنظیم نو اور مسلح کرنے کا عمل مکمل ہی نہ ہو سکا۔ ان حالات میں فوج کے مورال پر جو اثر پڑا اس کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار کون تھا؟ فوج سے اتنی بے اعتنائی کیوں برتی گئی؟ فوج میں جان بوجھ کر اتنی بددلی کیوں پھیلائی گئی؟ فوج ملک کا ایک اہم ترین قومی ادار ہ تھی جس کا تعلق ملکی سلامتی سے تھا اسے اس طرح سے نظر انداز کرنا قومی سلامتی کے ساتھ کھیلنے کے مترادف تھا۔ فوج میں اس حد تک بددلی پھیلائی گئی کہ فوج کے ایک وسیع طبقے کو یہ یقین ہو گیا کہ کچھ سیاستدان اور بیوروکریٹ ملکی سلامتی نہیں چاہتے اور خدانخواستہ پاکستان ختم کرنے کے درپے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ وزارت دفاع جان بوجھ کر فوج کو بیکار بنارہی ہے کہ یہ ہمیشہ نیچے لگی رہے۔ اس سے فوج کے نوجوان افسران میں کچھ سیاستدانوں اور سول بیوروکریٹ کے خلاف نفرت کا جذبہ ابھرا اور یہ لوگ ملکی سلامتی کے لیے بغاوت پر اتر آئے۔ آیا وہ صحیح تھے یا غلط اس کا فیصلہ فوج نے انھیں سخت سزائیں دے کر اسی وقت کر دیا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوج کے ساتھ بہت ہی عداوت پسند اور کسی حد تک تحقیر آمیز رویہ اپنایا گیا جو یقینا غلط تھا۔ اس کے باوجود فوج کبھی حرفِ شکایت لب پرنہ لائی۔ تمام تکلیفات اور زیادتیاں خاموشی سے برداشت کیں اور وطن کی سلامتی کے لیے جو کچھ ممکن تھا کرتی رہی۔ بھلا اس سے زیادہ اچھے ڈسپلن اور وفاداری کی مثال کیا ہو سکتی ہے۔
فوج کی تنظیم نو اور اسے مسلح کرنے کا صحیح عمل بھی اس وقت سے ہوا جب فوج نے طاقت پر قبضہ کیا۔ بہت سے پرانے آفیسرز کا اب بھی یہ خیال ہے کہ اس وقت کی سیاسی ابتری کے ساتھ ساتھ فوج کے ساتھ سول بیورو کریسی کا معاندانہ روّیہ بھی مارشل لاءکے لیے ایک طاقتور محرک تھا۔ اس وقت کے سیاسی ماحول کا اگر جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی محبِ وطن آدمی افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے سیاستدانوں نے ملک کا وہ حال کر دیا جو ایک وڈیرا اپنے مزارع کا بھی نہیں کرتا۔ مقام غور وفکر ہے کہ قائد اعظم کی موت ایک سازش کے تحت عمل میں لائی گئی۔ پاکستان کا پہلا وزیر اعظم بھرے جلسے میں شہید کر دیا گیا جس کی شہادت کے محرکات کا قوم کو آج تک علم نہیں ہو سکا۔ (جاری)