• news

انگڑائی جو واپس ہو گئی

غزہ کی صورتحال پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس ہوئے کئی روز گزر گئے، ابھی تک کسی صاحب خبر نے یہ نہیں بتایا کہ اجلاس کا مقصد کیا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اجلاس بلانے کی اتنی جلدی کیا تھی۔ غزہ میں قتل عام شروع ہوئے ابھی 34 دن ہی گزرے تھے کہ اجلاس بلا لیا حالانکہ تحمل سے کام لیا جاتا اور مزید 34 یا 40 یا 400 دن انتظار کر لیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔ 
خیر چلئے، اجلاس بلا لیا تو مقصد بھی بتا دیتے۔ ابھی تک لوگ طے نہیں کر سکے کہ جمع ہونے والے یہ حکمران کہنا کیا چاہتے تھے۔ کچھ کرنا کرانا تو ہے ہی کاردارد۔ بعض کی رائے ہے کہ اسرائیل عالمی دباﺅ سے سہما ہوا تھا، اس کی اس ”سہماہٹ “ کو دور کرنے کیلئے یہ کانفرنس ہونی تھی۔ خبر البتہ اس میں سے ایک یہ نکلی کہ الجزائر نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لینے کی تجویز دے کر سب کو بھونچکا کر دیا۔ جملہ مقدسین بے یقینی کے عالم میں آ گئے جسے سنّاٹے میں آنا بھی کہتے ہیں۔ بہرحال، وضع دار لوگ تھے، لحاظ کر گئے ورنہ الجزائری گستاخ کو بیک بینی اور دوگوش نکال باہر کرنے کا پورا پورا جواز تھا۔ ایک خبر یہ ہے کہ حماس کو باقاعدہ دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا ایجنڈا تھا لیکن الجزائری گستاخ نے مزا کر کرا کر دیا اور ایجنڈا بیچ ہی میں رہ گیا۔ اس دوران ”ارطغرل“ صاحب ہنستے مسکراتے رہے۔ اسرائیل کی جنگی مشینری اور بمبار طیاروں کا تیل خیر سے انہی کے ہاں سے آتا ہے۔ ارطغرل صاحب قسمت کے دھنی ہیں اور بلا کے رہنما۔ رند کے رند ہیں، ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دیتے۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ اپنی اپنی سرزمین پر سے اسرائیلی طیاروں کی اڑان یا گزران روک دی جائے۔ یہ تجویز اس لئے مسترد کر دی گئی کہ بحرین نے یہ پابندی پہلے ہی لگا رکھی ہے، فرض کفایہ ادا ہو گیا، سبھی تو اس کے مکلّف نہیں ہو سکتے۔ محمود عباس نے ایک خلیجی ریاست پر فلسطینی بچوں کا قاتل ہونے کا بے تکا الزام لگایا۔ اس ریاست نے کوئی بمباری نہیں کی جس سے فلسطینی بچے مرے، اس نے تو محض تھوڑا بہت اسلحہ نہتے اسرائیلوں کیلئے اور چند جہاز اسرائیلی زخمیوں کیلئے امداد سے بھر کر بھیجے تھے، خالصتاً انسانی ہمدردی کا کام تھا، اسی بات کا محمود عباس نے بتنگڑ بنا دیا۔ 
اسرائیل کا بارڈر ایک ایسی ریاست سے ملتا ہے جو خود کو سلطنت ہاشمیہ کہتا ہے۔ قانون اس ملک کا یہ ہے کہ فلسطین کے حق میں بات کرنا جرم ہے چنانچہ گاہے بہ گاہے اس ریاست کی یونیورسٹیوں سے کچھ طالب علم لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ ان طلبہ نے جانے انجانے میں فلسطین کے حق میں بات کر دی ہوتی ہے۔ لاپتہ ہوتے ہی یونیورسٹی حکام رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں، یہ طلبہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ 
مسئلہ یہ ہوا کہ اس ہاشمی ریاست کے دارالحکومت میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت کی اور اسرائیل مخالف نعرے لگائے۔ تعداد ان کی دس لاکھ تھی یعنی ملک کی کل آبادی کا دس فیصد۔ تو اب مسئلہ یہ درپیش ہو گیا کہ دس لاکھ آبادی کو اب کیسے لاپتہ کیا جائے۔ ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ 
ہے کوئی صاحب و سائل ملک جو بے چاری ہاشمی ریاست کی مدد کو آئے؟
_____
فرانس کے صدر میکرون کے ضمیر نے انگڑائی لی اور بول اٹھے اسرائیل غزہ والوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں اور عورتوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ 
دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ یہ پہلا یورپی سربراہ حکومت تھا جس نے ایسی بات کی۔ اس بیان کی دھمک واشنگٹن تک محسوس کی گئی۔ پھر خود کو ”آل مائٹی“ سمجھنے والا امریکہ حرکت میں آیا، یورپی یونین کے لوگ بھی ”بلّہے“ کو سمجھانے آئے اور محض دو ہی دن بعد میکرون نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ اسرائیلی لیڈروں سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے معذرت کی اور فرمایا کہ میرے بیان سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ میری ہرگز ایسی نیت نہیں تھی کہ اسرائیل کو قتل عام کا ذمہ دار قرار دوں__ حالانکہ قتل عام کا شکار تو خود بے چارہ اسرائیل ہے __ میکرون نے البتہ یہ بالکل نہیں بتایا کہ نیت نہیں تھی تو ایسے الفاظ ان کے منہ سے کیوں نکلے جس کی وجہ سے ازلی دکھیارے اسرائیل کا دل دکھا۔ واضح رہے کہ میکرون نے اپنے الفاظ کی تردید نہیں کی، یعنی یہ نہیں کہاکہ انہوں نے یہ بیان نہیں دیا۔ محض یہ کہا کہ نیت ان کی ایسی ویسی نہیں تھی۔ 
_____
غزہ کے ہسپتالوں پر اسرائیل نے پہلے بمباری کی۔ پھر اس کی فوجی پلٹنوں نے ہسپتالوں میں گھس کر عملے کو نکال دیا۔ آکسیجن سلنڈر اٹھا لئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے نوزائیدہ بچے ”انکلیو بیٹروں“ میں اور ان کے علاوہ آئی سی یونٹوں میں موجود تمام کے تمام مریض چل بسے۔ 
ہسپتالوں کے حکام نے مصر سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی مدد کیلئے آنے والی کمک کو آنے دے تاکہ آئندہ کے زخمیوں کو آکسیجن مل سکے لیکن مصر نے وہ گاڑیاں روک لی ہیں۔ چند دن پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما سنیٹر مشتاق احمد کحھ امداد لے کر مصر پہنچے لیکن مصری حکومت نے انہیں رفاہ بارڈر جانے سے روک دیا۔ مصر کسی بھی امداد کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دے رہا حتیٰ کہ پانی کی بوتلوں والے ٹرک بھی نہیں۔
مصر درست کر رہا ہے۔ پانی غزہ جائے گا تو کچھ بچے بچ جائیں گے، پھر وہ بڑے ہو جائیں گے اور حماس کے دہشت گرد بن جائیں گے۔ 
دہشت گردی کے گربے کو رفاہ بارڈر پر کشتن کر دینا ہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ 
_____ 
اپنے پنڈی والے شیخ الچلّہ نے بڑے دکھ کے ساتھ دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ گزشتہ روز فریاد کناں ہوئے کہ عرصہ دراز سے گیٹ نمبر چار کے ساتھ ہوں لیکن پھر نظر لگ گئی۔
نظر نہیں لگی چلّہ صاحب ، آپ کو گیٹ نمبر چار کی نوکری سے برطرف کیا گیا ہے اور وہ بھی شوکاز نوٹس کے بغیر جو برطرفی کی ”باعزت“ ترین شکل ہے۔ ایک دن آپ گئے تو آپ ملازم ہی تھے، دوسرے دن گئے تو برطرف ہو چکے تھے۔ 
اور یہ نظر کا معاملہ بصورت دگر بھی نہیں ہے۔ یہ سارا دوستی کا معاملہ ہے۔ کل ہی لال کوٹھے کے باہر مسلم لیگ کا بڑا انتخابی جلوس نکلا جو چلّہ صاحب کے جلسوں سے بڑا تھا۔ مطلب کچھ سمجھ میں آیا صاحب کہ نہیں ؟مطلب یہ کہ اس بار آپ کے مدمقابل کو تو اٹھایا جائے گا نہ نااہل کیا جائے گا اور نہ ہی جیل میں ڈالا جائے گا۔ نتیجہ کیا آئے گا، کسی سے بھی معلوم کر لیجئے۔ 
فرمایا، انتظار کر رہا ہوں کہ نواز شریف کو کب نظر لگتی ہے۔ یعنی ان کی ساڑھ ستی کب شروع ہوتی ہے، لگتا ہے چند روز کی چلّہ کشی نے شیخ جی کا حافظہ متاثر کر دیا ہے۔ نواز شریف کی ساڑھ ستّی 2014ءمیں شروع ہوئی تھی جو اب ختم ہو چکی ہے۔ 
ان کی ساڑھ ستی ختم ، آپ کی اور آپ کے اڈیالے والے مرشد کی شروع ہو گئی ہے۔ مناسب ہے کہ سات سال انتظار فرمائیں۔

ای پیپر-دی نیشن