• news

سیاست اور ہم

موجودہ سیاسی صورت حال کیا یونہی چلتی رہے گی؟ یا اِس میں کچھ ٹھہراؤ اور متانت بھی آئےگی۔ سیاست میں تناؤ کی اس کیفیت نے ہماری حیثیت ہی نہیں، تہذیب و تمدن کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ کچھ سیاستدانوں کے نزدیک سیاست، عبادت کا نام ہے۔ لیکن عملی طور پر ہم نے کم ہی دیکھا ہے کہ کسی نے سیاست کو عبادت سمجھا ہو یا عبادت کا درجہ دیا ہو۔
گزشتہ دو دہائیوں سے تو عالم یہ ہے کہ سیاست ”کچر ا منڈی“ بنی ہوئی ہے۔ جس کے دل میں جو آتا ہے کہتا ہے۔ کچھ بھی کہنے سے بالکل بھی گریز نہیں کرتا۔ چاہے بات کہنے والی ہو یا نہ ہو۔ گالم گلوچ اور الزام تراشی کی سیاست نے سیاست کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ بدگمانیاں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ کسی کو دوسرے کا لحاظ نہیں رہا۔ جس سے سیاست ” پراگندہ ٹینشن زدہ“ نظر آتی ہے۔
بردباری اور تحمل کی جگہ اب سیاست میں عدمِ برداشت ہے۔ جو بھی سیاستدان جیل میں جاتا ہے، باہر آ کر دودھ کا د±ھلا بن جاتا ہے۔ نواز شریف، آصف علی زرداری بھی لمبے عرصے کے لیے جیلوں میں گئے تاہم پراسیکیوشن انہیں عدالتوں سے ”مجرم“ ڈکلیئر نہیں کرا سکی۔ اِن دنوں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں۔ دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے انہیں جیل گئے ہوئے۔ بیان ا±ن کا بھی یہی ہے کہ انہیں دباؤ میں لانے اور سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے ا±ن پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔جبکہ ان سے پہلوں کا بھی بالکل یہی موقف رہا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ مالی نوعیت کے سنگین مقدمات کے باوجود آج تک کوئی کسی کا بھی بال بیکا نہیں کر سکا۔ اب عمران خان قید میں ہیں۔ عدالتوں میں ا±ن کے مقدمات کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ دیکھتے ہیں قانون ا±ن کے ساتھ کیا ”سلوک“ کرتا ہے۔ کیا تمام مقدمات سے وہ بری الذمہ قرار پاتے ہیں یا پھر سزا پا کر جیل کی کال کوٹھری بدستور ا±ن کا مقدر رہتی ہے۔
الیکشن بھی اب بہت قریب آ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر پاکستان کی مشاورت سے 8 فروری 2024ءکو الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سوا باقی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ”لیول پلینگ فیلڈ“ کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ا±ن کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے لیے راہ ہموار کی جار ہی ہے جبکہ ا±ن کو وہ مواقع میسر نہیں، جو، ن لیگ کو حاصل ہیں۔نواز شریف کی پاکستان آمد اور 21اکتوبر کو مینار پاکستان پر ن لیگ کے سیاسی شو کو پی پی پی اور پی ٹی آئی حکومتی وسائل سے جوڑ رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کا الزام ہے کہ اس موقع پر بیجا سرکاری مشینری کا استعمال کیا گیا۔ نواز شریف اور ن لیگ کو وہ سہولتیں مہیا کی گئیں جو ا±ن کا حق نہیں تھا۔ وہ ایک عام شہری اور ”مجرم“ کی حیثیت سے پاکستان آئے لیکن ا±ن کے لیے نادرا کا عملہ خصوصی طور پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھیجا گیا تاکہ میاں صاحب کی بائیو میٹرک تصدیق ہو سکے۔ الزام یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو حکومت کی جانب سے سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے نواز شریف کی زیر صدارت جاتی عمرہ میں ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ جس میں میاں شہباز شریف اور مریم نواز کے علاوہ دیگر قائدین نے بھی بھرپور انداز میں شرکت کی۔ طے پایا کہ نواز شریف 10نومبر سے باقاعدہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں بھی ا±ن کے دورے شیڈولڈ ہیں۔ جہاں وہ عوامی رابطہ مہم میں حصّہ لیں گے اور بڑے انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ نواز شریف نے پارٹی منشور کی تیاری کے لیے سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ جو پارٹی منشور تیار کرے گی اور اس منشور کی روشنی میں پارٹی پروگرام کو آگے بڑھایا جائے گا۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والوں کی ”استحکام پاکستان پارٹی“ اگرچہ ابھی تک ایک نوزائیدہ جماعت ہے۔ اور اس کی عمر تین ماہ بھی نہیں ہوئی لیکن ا±س نے منعقدہ اپنے حالیہ جلسے میں اپنا پارٹی منشور پیش کر دیا۔ یہ ایک ہوشربا منشور ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ تین سو یونٹ تک کے بجلی صارفین کا بل ”استحکام پاکستان پارٹی“ ادا کرے گی لیکن اس کے لیے شرط بھی رکھی گئی ہے کہ اس کا حکومت میں آنا ضروری ہو گا۔ استحکام پاکستا ن پارٹی منشور کے اور بھی اہم اور کلیدی نکات ہیں۔
پی ٹی آئی نے گزشتہ ماہ لاہور میں لبرٹی کے مقام پر ڈی سی لاہور سے جلسے کی اجازت مانگی تھی جو انہیں نہیں دی گئی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ لبرٹی کی بجائے جلسے کے لیے کوئی اور مقام تجویز کر لیں۔ لیکن اس سے نہ پی ٹی آئی نے اتفاق کیا اور نہ ہی لبرٹی کے لیے لاہور انتظامیہ مانی۔ اب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے اس صورت حال میں کیا نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں جیل میں ہیں۔ ا±ن کا اب بھی یہی خیال ہے کہ لوگوں کی اکثریت ا±نکے ساتھ ہے۔ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی ہی کامیاب ہو گی جبکہ مارکیٹ میں اس وقت ہواؤں کا رخ ن لیگ کی جانب ہے۔ کہتے ہیں ”اسٹیبلشمنٹ“ جس کا ساتھ چھوڑ دے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ اس لیے اب سب کی نظریں میاں نواز شریف اور ن لیگ پر لگی ہوئی ہیں۔ شاید اسی لیے انہیں پروٹوکول بھی بہت زیادہ مل رہا ہے۔
بہرحال، اب دیکھتے ہیں یہ الیکشن کیا نتائج لے کر آتا ہے۔” نتیجہ “ اگر وہی ہوا جس کا گمان کیا جا رہا ہے تو شاید اگلے پانچ سال پھر بے امنی میں گزریں۔ آنے والی حکومت کے لیے امور مملکت چلانا مشکل ہو جائے۔ ہماری تو بس یہی دعا ہے الیکشن ہوں اور خیر، خیریت سے گزر جائیں۔ کیونکہ اب ہم مزید کسی شورش اور افراتفری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دیہی اور قبائلی علاقہ جات میں اب بھی ذات برادری اور سرداری کے نام پر ووٹ پڑتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ووٹ لینے کے لیے ووٹروں کو ورغلاتی ہیں اور ا±ن سے جھوٹ بولتی ہیں۔ ایسا منشور پیش کرتی ہیں کہ اگلے کئی جنموں تک بھی شاید اِن پر عملدرآمد ممکن نہ ہو۔ مگر اقتدار میں آنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرتی ہیں لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہیں اپنے وعدے بھی اور منشور بھی۔
ہماری عوام بہت سادہ ہے اس لیے وہ اپنے لیڈروں کے بیانات پر جلد اعتبار کر لیتی ہے۔ تاہم پھر ا±ن کے دور اقتدار کے پانچ سالوں میں انہیں ان جھوٹے وعدوں اور سبز باغوں کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جو کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ووٹ کیلئے ہمیں آج بہت شعور و آگہی کی ضرورت ہے۔ ”ووٹ“ ایک قیمتی اور مقدس امانت ہے۔ جب تک ہم اس کا صحیح استعمال نہیں کریں گے معیشت کی ناانصافی سمیت ہمیں کئی اور ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں ہمیں جاگنا ہوگا۔ دیکھنا پڑے گا کون ایسا امیدوار ہے جو ہماری نمائندگی کا صحیح حقدار ہے اپنا نمائندہ صحیح چنیں گے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے ووٹ کے نتائج بھی اچھے ہوں گے۔
اب ہم بس کردیں، سوچیں ہمارے لیے کیا اچھا ہے، کیا ب±را ؟ آپ کا صرف ایک ووٹ دیگر ووٹوں کے ساتھ مل کر ساری قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ صحیح و درست فیصلے قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔
٭....٭....٭

سعد اختر

سعد اختر

ای پیپر-دی نیشن