• news

بدھ ‘ 1445ھ ‘ 15 نومبر 2023ئ

آٹے کی قیمت بلند ترین سطح پر، 10 کلو کا تھیلا 1399 روپے کا ہو گیا 
 عوام کو بھوکا مارنے کے لیے حکمرانوں نے نہایت عرق ریزی کے بعد ایک بار پھر آٹے کی قیمت میں ہوش ربا کہہ لیں یا دلربا قسم کا اضافہ کر دیا ہے۔ جی ہاں اب 10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت سرکاری طور پر 1374 روپے مقرر کر دی ہے جو اب بازار میں 1399 روپے مقرر قیمت پر ملے گا یعنی اب یہ تھیلا 1400 روپے کا کر دیا ہے۔ یوں اب غریب کیا کھائے گا اور کیا پکائے گا۔ حالانکہ چند روز قبل تک حکومت اعلان کرتی پھر رہی تھی کہ گندم کی بھرپور (بمپر) فصل ہوئی ہے۔ گودام بھی بھرے ہوئے ہیں، تو یہ بمپر فصل اور سرکاری گوداموں میں پڑی یہ گندم کیا چوہوں کے کھانے کے لیے رکھی ہوئی ہے۔ یہ گوداموں سے لا کر بازاروں میں کیوں نہیں فروخت کر کے آٹے کی قیمت میں کمی لائی جا رہی ہے۔ کیا یہ حکومت اور فلور ملز کی ملی بھگت ہے کہ کم از کم گندم پسوائی کے لیے دستیاب ہو اور کم دستیابی کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں من چاہا اضافہ کیا جائے۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔ کیاحکمران بھول گئے کہ جب بھوکے لوگ بپھرتے ہیں تو پھر وہ سب سے پہلے انہی گوداموں کے ملوں کے سٹورز کے گیٹ توڑ کر ان کو لوٹتے ہیں ان کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ ابھی تک ہمارے ہاں تمام تر ظلم و ستم کے باوجود شکر ادا کریں کہ بقول اقبال ”اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے۔“ نہیں آیا اور یہ گودام ، سٹور اور ملیں سلامت ہیں۔ اس لیے عوام کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کریں ان کے منہ سے نوالہ مت چھینیں۔ ورنہ پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ پنجابی میں درست کہتے ہیں 
”ٹڈ وچ نہی روٹیاں تے ساریاں گلاں کھوٹیاں" 
٭٭٭٭٭
سیاسی جماعتوں نے الیکٹیبلز کے لیے دروازے کھولے دئیے
 یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب جیتنے والے گھوڑے درحقیقت میں فصلی بٹیرے ہوتے ہیں جو موقعہ ملتے ہی جہاں دانا دیکھتے ہیں چگنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اب پھر الیکشن کی فصل پکنے کو تیار ہے۔ ہر فصلی بٹیرا من پسندکھیتوں یعنی سیاسی جماعتوں کا رخ کرنے کے لیے پھڑ پھڑا رہا ہے۔ ان کی یہ بیتابی دیکھ کر ا ن جماعتوں کا دل بھی پسیج رہا ہے جن کے جال توڑ کر یہ بٹیرے اڑ کر دوسرے کھیتوں میں گئے تھے۔ اب اول تو ان بٹیروں کو ہی شرم آنی چاہیے تھی کہ وہ دوبارہ ان جماعتوں کا رخ کیوں کر رہے ہیں جہاں سے بھاگے تھے اور دوسری بات یہ جماعتیں اب پھر کیوں ان کو منہ لگا رہی ہیں۔ صرف یہی خوبی سب سے بہتر ہے کہ یہ جسے ٹکٹ دیں وہ الیکشن جیتنے کا ماہر ہو۔ باقی سب خوبیاں اور خامیاں جائے بھاڑ میں یا چولہے میں کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔ اب پھر مسلم لیگ (نون) ہو پیپلز پارٹی یا استحکام پاکستان پارٹی انہوں نے اپنے اپنے کھڑکیاں اور دروازے کھول دئیے ہیں تاکہ جس جس نے آنا ہے آئے یوں 
کھڑکی سے دروازوں سے چلمن سے چوباروں سے 
جھانکا نہ کرو جی جھانکا نہ کرو 
والی کیفیت ختم ہو رہی ہے اور اب یہ موسمی پرندہ نئی ہجرت کے لیے پَر کھول رہے ہیں اور سیدھے اندر چلے آ رہے ہیں۔ اس سے پرانے کھرے رہنماؤں کی دل شکنی بھی ہو رہی ہے جنہوں نے خون دل دے کر نکھارا تھا چمن وہ بے چارے چوب خشک کی طرح ایک طرف پڑے ہوئے اس سیاسی بدچلنی کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں۔ یوں اب ناراضگی کا موسم بھی کسی وقت سامنے آ کر ہمارے سیاسی نظام کی بدمعاملگی کو مزید برہنہ کر کے ہمارے سامنے لائے گا۔
٭٭٭٭٭
ٹریفک اہلکاروں کو وزرا کا چالان کرنے میں سیاسی دباؤنہیں ہو گا۔ سرفراز بگٹی 
وزرا کی تو بات چھوڑیں عام ممبر صوبائی و قومی اسمبلی تو کیا ایک بلدیاتی کونسلر بھی چالان کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ اچھے انسان ہونے کی وجہ سے ایسی بات کر جاتے ہیں جو خلاف واقعہ ہوتی ہیں۔ ٹریفک اہلکاروں کی کیا مجال کہ وہ سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو روکیں۔ گن مینوں کے ہاتھوں رسوا ہوں۔ یہ بڑے بڑے پھنے خان تو یہ تک برداشت نہیں کرتے کہ ان کی گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ بھی کیوں کیا گیا۔ گردنوں میں سریا ہونے کی وجہ سے یہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور تو اور ذرا سا تگڑا لفنڈر قسم کا بندہ بھی ٹریفک والوں سے زبان درازی یا ہاتھا پائی سے باز نہیں آتا۔ رعب جھاڑنے لگتا ہے۔ یہ روزانہ کا معمول ہے۔ کہیں ٹریفک اہلکار پٹ رہے ہوتے ہیں کہیں ان کی وردی تار تار ہوتی ہے۔ یہ ان اہلکاروں کی نہیں سچ کہیں تو قانون کی تذلیل ہے۔ گزشتہ روز ہی پنجاب میں ایک بارات والوں نے ٹریفک اہلکار پر ایسا تشدد کیا جو چینلز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں سب نے اس اہلکار کی وہ درگت بنائی جن کے چہرے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح باقی وارداتوں میں جو لوگ شناخت ہوں ان کے خلاف بھی کیا قانون حرکت میں آتا ہے۔ وزیر داخلہ ذرا اسی بات کا جواب تلاش کریں۔ ہر جگہ جھٹ سے سفارش آڑے آ جاتی ہے۔ وزیر داخلہ پہلے ان سفارشی کالوں پر پابندی لگائیں جو لوگ کال کرتے ہیں ان کے نام اخباروں اور چینلز پر نشر کریں۔ ورنہ یہ ٹریفک اہلکار غریب دا بال بن کر ہر جگہ پٹتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بات اور عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ٹریفک اہلکار بھی جو شہروں کی حد تک پڑھے لکھے اور نرم خو اکثر ملتے ہیں دیگر علاقوں والے بھی اگر حسن سلوک کا مظاہرہ کریں تسلی سے دوسروں کی تشفی کریں ، بدکلامی یا تلخ کلامی نہ کریں تو حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ سخت گیری سے بھی معاملہ بگڑتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
امریکی صدر پھر بھول گئے۔ فوجی اہلکار سے مدد لینا پڑی
 لگتا ہے امریکی عمرسیدہ صدر کو بھولنے کی یا تو بیماری ہے یا عمر کے اس حصے میں ویسے ہی انسان کے اعصاب اور حواس مختل ہو جاتے ہیں۔ اب جوبائیڈن صاحب بھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں 
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے 
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے 
والی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ مگر اب کیا کریں صدارت کی رسومات تو ادا کرنا ہوتی ہیں گزشتہ ایک تقریب میں صدر قومی یادگار پر پھول چڑھانے آئے۔ پھول چڑھانے کے بعد موصوف یہ بھول گئے کہ اب کیا کرنا ہے۔ جب کچھ پلے نہ پڑا یاد نہ آیا تو پاس کھڑے فوجی اہلکار سے پوچھا میاں اب میں نے کیا کرنا ہے۔ اس پر فوجی افسر نے بتایا کہ جناب اب آپ نے واپس پلٹ کر اپنی مقررہ جگہ پر جانا ہے۔ یوں انہیں واپس لے جایا گیا۔ ورنہ کیا معلوم وہ کسی مہاتما کی طرح وہاں ہی آنکھیں بند کئے گیان دھیان میں مصروف ہو جائے۔ ویسے بھی جس طرح غزہ کے معاملے میں انہوں نے آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے ہیں کوئی لہو رنگ منظر یا دم توڑتی سسکیوں کی آواز انہیں متوجہ نہیں کر رہی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے امریکی صدر کا یوکرائن کے معاملے میں انصاف کا انسانی ہمدردی کا معیار کچھ اور ہے۔ فلسطین کے حوالے سے کچھ اور ہے۔ یوکرائن پر پر روسی بمباری ہوئی تو امریکہ اور اس کے حواری یکجا ہو کر ”گرگ باراں دیدہ“ کی طرح مل کر شور مچانے لگے روس کی ناکہ بندی تک کرنے لگے۔ مگر یہی سب اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کے قتل عام میں شریک ہیں۔ یہ کونسا انصاف ہے کونسی انسان دوستی ہے۔ شاید عمر رسیدہ امریکی صدر یہ اہم بات بھی بھول گئے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن