• news

فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سینیٹ میں قرارداد منظور 

 سینیٹ نے کثرتِ رائے سے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کر لی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد سینیٹر دلاور خان نے ایوان میں پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ پاک فوج پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل آئینی و قانونی دائرہ¿ کار میں ہے۔ ریاست مخالفت، جلاؤ گھیرا ؤاور تشدد کے ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ایسے واقعات کی روک تھام کرتا ہے۔ خدشات ہیں کہ ملٹری کورٹس ٹرائل کی عدم موجودگی میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ملٹری کورٹس نے دہشت گردی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملٹری کورٹس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹس میں درخواست کا معاملہ بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ آرمی ایکٹ میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں میں ٹرائل کے دوران آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ جب تک لارجر بنچ اس کا جائزہ نہ لے فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔ بنچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں، قانونی ابہام ہے، لارجر بنچ اس کا جائزہ لے۔ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارت میں مداخلت ہے۔ فوجی عدالتوں میں کسی اہلکار کے عسکری ادارے کے ڈسپلن کی خلاف ورزی اور غداری کے زمرے میں آنے والے مقدمات دیکھتے ہیں جاتے ہیں مگر آئین پاکستان فوجی عدالتوں کو آرمی ایکٹ کے تحت ایسے شہریوں کے ٹرائل کی بھی اجازت دیتا ہے جو دہشت گردی اور فوجی املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں سینیٹ میں ایک جامع قانون سازی کی گئی جس کے تحت 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو متفقہ طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کی سزائیں بھی کالعدم قرار دے دیں اور حکم صادر کیا کہ عام شہریوں کے خلاف دائر مقدمات سول عدالتوں میں ہی نمٹائے جائیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سینیٹ نے کثرت رائے سے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی۔ بے شک سینیٹ قانون سازی کے لیے مجاز فورم ہے اور اس کے ذریعے کی گئی قانون سازی کی عدالت صرف تشریح کر سکتی ہے مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی بنیادوں کو سامنے رکھ کر ہی صادر کیا گیا ہے جس پر سینیٹ کو غور کرنا چاہیے۔ ریاست کے ستون باہم متفق ہو کر ہی آئین اور قانون کی پاسداری کروا سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں آپس میں الجھ کر فوج یا کسی دوسرے ادارے کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہیے جس سے عوام سے دوری کا تاثر ابھرتا ہو۔ ریاستی اداروں کو مضبوط بنا کر ہی ریاست کی رٹ قائم کی جاسکتی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن