فیض آباد دھرنا کیس،انکوائری کمشن قائم،اس وقت کے کسی بھی اعلی عہدیدار کو طلب کرسکےگا۔عدم پیشی پر گرفتاری کا اختیارہوگا۔سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں تین رکنی انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن اور دس ٹی او آرز سپریم کورٹ میں پیش کر دیئے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا کمیشن اگر کسی کو بلائے اور وہ نہ پیش ہوا تو کمیشن گرفتار کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ منگل کے روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے ۔سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ کمیشن اگر کسی کو بلائے وہ نہ گیا تو گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے۔ سماعت شروع ہونے سے قبل وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیشن تشکیل دیا جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کے محرکات جاننے کیلئے تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا ہے جس کی سربراہی ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کریں گے، سابق آئی جی طاہر عالم، ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ خوشحال خان بھی تین رکنی کمیشن میں بطور ممبر ہونگے۔ وفاقی حکومت نے کمیشن کے 10 ٹی او آرز طے کردیئے۔
طے کردہ ضابطہ کار کے مطابق فیض آباد دھرنے کیلئے تحریک لبیک پاکستان کو غیر قانونی مالی معاونت فراہم یا کسی اور طرح کی معاونت کی تحقیقات کر ے گا، نقصان پہنچانے کی غرض سے فتوے یا احکامات جاری کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی تجویز انکوائری کمیشن دے گا، پیمرا کو بے عمل کرنے والوں کیخلاف انکوائری ہوگی، انکوائری کمیشن نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے والوں کا تعین کرکے سدباب کیلئے تجاویز دے گا ،کمیشن قانونی خلاف ورزی یا زمہ داری ادا کرنے میں غفلت پر کسی فرد یا پبلک آفس ہولڈر کا تعین کرے گا ،کمیشن اس وقت کے خفیہ اداروں سمیت سرکاری اداروں کے افسران کی زمہ داریوں کا تعین بھی کریگا،کمیشن اس بات کا بھی تعین کریگا انٹیلی جنس اداروں اور سرکاری افسران کیخلاف محکمانہ کارروائی مطلوب ہے تو کیا کاروائی ہونی چاہیے،کمیشن دھرنے اور ریلیوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں اورپولیس کے کردار کا بھی تعین کریگا،کمیشن تجویز دے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موثرنگرانی کریں کہ نفرت انگیز، انتہاپسندانہ اور دھشتگردانہ مواد پہیلانے والوں کے خلاف کاروائی کرے،وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں کمیشن کی معاونت کی پابند ہونگیں،کمیشن کا سیکریٹریٹ اسلام اباد میں ہوگا اور اپنا سیکریٹری ہوگا،کمیشن کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی،کمیشن دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے وفاقی حکومت کو رپورٹ بھجوائے گا،اگر کمیشن کو دو ماہ سے زائد وقت چاہیے تو پھر حکومت سے توسیع کی اجازت لینا ہوگی،کمیشن سوشل میڈیا پر پھلایا گیا نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کا جائزہ لے کر سدباب کے لئے تجویز دے گا۔ حکومتی نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا فیض آباد دھرنے کے سبب شہریوں کو عدالتوں، دفاتر، سکولوں، ہسپتالوں میں پہنچنے میں دشواریاں اور مشکلات تھیں، فیض آباد دھرنا کے سہولت کار، دھرنے دینے والے اور مجرمان نے آئین پاکستان میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ عدالتی کارروائی میں شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے خارج کر دی۔
چیف جسٹس نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دائر ہی کیوں کی تھی، نظرثانی دائر کر کے چار سال لٹکائے رکھا، یہ نہیں ہوگا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔ وکیل شیخ رشید نے کہا کہ کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی اس لیے نظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں کوئی ہمت نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے، نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے، آپ اب بھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی کا کہا تھا۔ وکیل شیخ رشید نے کہا کہ مجھے کسی نے نہیں کہا تھا، وکیل کے مشورے سے نظرثانی دائر کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو لگتا ہے ماضی میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، 100 سال بعد بھی یہ سچ نہیں بولا جائے گا کہ نظرثانی درخواستیں کس نے دائر کروائیں، ملک میں نفرتیں پھیلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن خود ہیں، کوئی سڑکیں بند کر کے جلاو گھیراو کرکے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر سے ملک کی اسی طرح خدمت کریں گے۔ دوران سماعت شیخ رشید نے بولنے کی کوشش کی، چیف جسٹس نے شیخ رشید کو بولنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل سے بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ایم این اے رہ چکے اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں نا، جلاوگھیراو کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ شیخ رشید ایک سینیئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔ اٹارنی جنرل نے نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں، کمیشن کو مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت وجوہات ریکارڈ کر کے مزید وقت دے گی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کمیشن اس معاملے سے ڈیل کرنے کے قابل ہے، سابق چیئرمین پیمرا نے اس وقت کے آرمی چیف اور وزیر اعظم کو بذریعہ خط بتایا تھا، ہم وفاقی حکومت کو کوئی ڈائریکشن نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کمیشن آنکھوں میں دھول بھی بن سکتا ہے اور نیا ٹرینڈ بھی بنا سکتا ہے، پیمرا حکومت اور اداروں کو ڈیوٹی بتائی تھی وہ نظرثانی میں آگئے تھے، ہم صرف اپنے تحفظات بتا رہے ہیں۔
ابصار عالم نے کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کیا دو ریٹائرڈ افسران سابق ڈی جی آئی ایس آئی، چیف جسٹس یا وزیر اعظم کو بلا سکیں گے، اس پر شک ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ دو مہینے بعد کمیشن کا کام دیکھ کر جو کہنا ہوا کہہ سکتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں آپ کے خدشات غلط ثابت ہوں،دنیا امید پر قائم ہے ہم بھی امید سے ہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ساڑھے چار سال گزر گئے ساٹھ دنوں میں دیکھ لیتے ہیں، حاضر سروس بارے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خدشات کو ابھی محفوظ رکھیں، ہوسکتا ہے ساٹھ دنوں میں آپکی بات سچ نکل آئے لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور ہم پہلے سے ہی شک نہیں کرسکتے، سچ تو تفتیشی بھی نکال سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہیے، ہم سے وہ کام نہ کروائیں جو کبھی 184 کی شق کے اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہا، مس کنڈکٹ پر وزیر اعظم آرمی چیف کیخلاف کارروائی کا اختیار بھی رکھتا ہے ،کرسی سے نیچے اترنے کے بعد وزیر اعظم کہتا ہے ا±سے اختیار ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت 22جنوری تک ملتوی کر دی۔