افسوس کہ ماضی کا اچھا دور یاد نہیں کرتے
میں متوسط طبقے سے ہوں اور ساری زندگی محنت کرکے اس مقام تک پہنچا ہوں۔ میں نے بہت غور سے 1970ءسے اب تک کے ادوار کا مشاہدہ کیا ہے۔ جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت پاکستان پر عالمی پابندیوں کے خدشات کے پیش نظر حکومت نے فارن کرنسی اکا¶نٹ منجمدکیے اور ملکی معیشت کی حالت خراب ہوگئی۔ ساتھ ہی ساتھ اس وقت پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی خبریں تواتر سے آرہی تھیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 22 فیصد تھا جبکہ زراعت کی حالت یہ تھی کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم ترکی اور دیگر ممالک سے گندم درآمد کررہے تھے۔ اس وقت بھی اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی ا ے اور پی ایس او دیوالیہ پن کے قریب تھے۔ ملک بھر میں بدامنی اپنے عروج پر تھی اور اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔ کسان بھی حکومتی پالیسیوں سے نالاں تھے۔دنیا بھر میں بنیادی جمہوریت، بلدیاتی نظام ہوتا ہے جس کے ذریعے عوام کے بنیادی مسائل حل کیے جاتے ہیں اور پرائس کنٹرول کا مو¿ثر طریقہ کار فعال رہتا ہے جس سے مصنوعی مہنگائی میں کمی آتی ہے لیکن ملک بھر میں بلدیاتی نظام نہیں تھا اور نہ ہی مہنگائی پر قابو پانے کا کوئی فعال طریقہ کار موجود تھا۔
1999ءمیںجب حکومت تبدیل ہوئی تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 1.6ارب ڈالر تھے۔ نئی حکومت نے میرٹ پر تقرریوں، تبادلوں اور تقرریوں کا طریقہ کار اپنایا اور ہر جگہ میرٹ کو معیار بناکر ملک کو سدھار نے کے عزم سے کام کا آغاز کیا۔ 2000ءمیں مارک اپ کی شرح 12 فیصد تک آگئی اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 3ارب تک چلے گئے۔ تمام قومی اداروں میں میرٹ پر اہل افراد کو سربراہ بنایا گیا۔ انتظامی اور پولیس عہدوں پر بھی میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کی گئیں۔ ملک بھر میں بدامنی میں واضح کمی آئی اور آرمی مانیٹرنگ ٹیموں کے ذریعے بجلی چوری کے سدباب کا فعال نظام متعارف کرایا گیا۔ پھر ایک سال بعد2001ءمیں مارک اپ کی شرح مزید کم ہوکر 9 فیصد تک آگئی اور زرمبادلہ کے ذخائر 3.2ارب ڈالر تک پہنچے۔ 2002ءمیں معیشت میں مزید بہتری آئی اور مارک اپ کی شرح مزید کم ہوکر 6.5 فیصد اور زرمبادلہ کے ذخائر مزیدمستحکم ہوکر 3.5ارب ڈالر تک پہنچے۔
2002ءمیں عام انتخابات کرائے گئے اور جمہوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ملک بھر میں بہترین بلدیاتی نظام رائج کرکے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور اس قدر بااختیار بلدیاتی نظام رائج کیا گیاکہ کئی اراکین قومی اسمبلی نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے کر ضلع ناظم بن کر اپنے علاقے کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اسی دور میں ہوئے اور کراچی کے ناظم کو ایشیا کے بہترین ناظم کا ایوارڈ بھی ملا۔ اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے اور پی ایس او منافع بخش ادارے بن گئے اور قومی اداروں سے سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کردیا گیا۔
اسی دور میں کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا تو جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں کسان کانفرنس طلب کی جس میں کسانوں سے ان کے مسائل اور اس کے حل کے متعلق رائے لی گئی۔ کسانوں نے فصل کے ریٹ مقرر کرنے کے لیے مناسب ریٹ کے تقرر پر یہ وعدہ کیا کہ اگر حکومت ہمارے مطالبات مان لے تو ہم پہاڑوں پر بھی اناج اگائیں گے اور ملک کو خوراک میں خودکفیل کردیں گے۔ حکومت نے کسانوں کے مطالبات تسلیم کیے اور گندم، گنا اور کپاس کے نہ صرف بہترین ریٹ مقرر کیے بلکہ کسانوں کو سرکاری ریٹ کی ادائیگی کو بھی یقینی بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی فلیٹ ریٹ پر فراہم کی گئی۔ سال میں 2 بار تسلسل سے بھل صفائی کی گئی تاکہ ٹیل تک کے زمینداروں کو نہری پانی مل سکے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان بہت ہی مختصر وقت میں پہلی بار خوراک میں نہ صرف خودکفیل ہوگیا بلکہ پاکستان گندم برآمد کرنے لگا۔ کسان خوشحال ہوا تو مزید محنت کی اور پاکستان کی معیشت مزید مستحکم ہوئی۔ 2003ءمیں مارک اپ کی شرح 4.23 فیصد تک آگئی اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 10ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
یہی وہ وقت تھا جب ڈاکٹر عشرت حسین گورنر اسٹیٹ بینک تھے اور انھوں نے تمام بینکوں کو عام آدمی کو شخص ضمانت پر قرض فراہمی کو یقینی بنایا اور اسی دور میں تمام بینکوں کے افسران کاروباری افراد کے دفتروں میں جاکر انتہائی آسان شرائط پر قرض فراہمی کے لیے جاتے اور کاروباری افراد نے آسان ترین شرائط سے استفادہ کیا اور ملکی معیشت کی بہتری اور بے روزگاری میں کمی کے لیے اپنے کاروبار کو مزید وسیع کیا۔ یہ ایسا سنہری دور تھا جب ہر عام آدمی کو 10لاکھ تک آسان ترین شرائط پر قرض فراہم کیا گیا اور ہر شخص نے معیشت کی بہتری میں اپنا بھرپور کردار کیا کیونکہ حکومت کی جانب سے مکمل بہترین ماحول فراہم کیا گیا۔ یہی دور تھا جب ڈالر مستقل 62روپے پر منجمد رہا جبکہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ ملک بھر میں کہیں بھی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا کوئی وجود نہیں تھا جبکہ عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی استحکام رہا۔ ملک بھر میں امن و امان بھی مثالی رہا۔
2004ءمیں مارک اپ کی شرح 5 فیصد جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 11ارب ڈالر ہوگئے۔ تمام بڑے قومی ادارے منافع میں چلے گئے اور اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی۔ پی ایس او کے شیئرز تاریخ کی بلند ترین سطح پر فروخت ہونے لگے۔ 2005ءمیں مارک اپ کی شرح 8.91 فیصد جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 12.6ارب ڈالرز تک چلے گئے۔ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے ملک کو قرضوں سے نجات دلائی۔ 2006ءمیں مارک اپ کی شرح 9.22 فیصد تک تھی جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 18.93ارب ڈالر تک چلے گئے۔ اس تمام دور حکومت میں اغواءبرائے تاوان کا صرف ایک واقعہ رپورٹ ہوا تھا جس پر حکومت نے متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔
2008ءمیں الیکشن کے بعد جنرل پرویز مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دیا اور پھر 2013ئ، 2018ءکے الیکشن اور سیاستدانوں کی حکومتوں کے بعد اب 2023ءمیں ملک کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آج ملکی معیشت ایک بار پھردیوالیہ تک پہنچی ہوئی ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بے روزگاری سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوان ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں۔ لاقانونیت اپنے عروج پر ہے۔ بلدیاتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ 2002ءمیں کسانوں کو اپنی فصل کی جو قیمتیں ملتی تھیں اب 2دہائی بعد اس سے کم مقرر کرکے زراعت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور بجلی کے بلوں سے لوگ تنگ ہیں۔ سیاستدانوں کی کارکردگی سے تمام بڑے قومی ادارے دیوالیہ ہوچکے ہیں۔اس تمام جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاستدانوں نے اب تک ہر حوالے سے نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ سیاستدانوں میں ملک چلانے کی اہلیت نہیں ہے بلکہ ان کی ساری توجہ الزامات، ضد اور انا کی سیاست پر ہی ہے۔ اب بھی سیاستدانوں کا یہی طرز عمل جاری ہے۔فوج نے جو بھی اچھے کام کیے ہیں، سیاستدان اس کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے ہمیشہ حق بات کی ہے اور ہمیشہ حق بات کرتا رہوں گا۔ نگراں حکومت کی 2ماہ کی مثالی کارکردگی اور تمام معاشی اشاریوں میں بہتری کے بعد ایک بار پھر عوام الیکشن ہونے سے ملک کے لیے کوئی اچھی امید نہیں لگا رہے کیونکہ عام آدمی کو مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت سے نجات چاہیے۔ میرے خیال میں تو 5سال کے لیے اتفاق رائے سے قومی حکومت قائم کی جائے جو ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرکے صرف اور صرف معیشت کی بہتری پر اپنی تمام تر توانائی صرف کرے اور ملکی معیشت کو ایک بار پھرمثالی استحکام تک لے جائے۔ ملک مستحکم ہوگا تو سیاست بھی ہوتی رہے گی اور اقتدار کی رسہ کشی بھی چلتی رہے گی لیکن سب سے پہلے پاکستان ہے۔