لندن میں آزادی فلسطین کا تاریخی مظاہرہ
آج کا یہ کالم غزہ پر 7 اکتوبر 2023ءسے نہتے اور مجبور فلسطینیوں پر صہیونی اسرائیلی افواج کی تاہنوز جاری وحشیانہ بمباری اور 11 ہزار سے زائد فلسطین مرد‘ عورتوں اور چھ ہزار بچوں کی شہادت پر اپنے آنسوﺅں سے سمجھوتا کرتے ہوئے 11 نومبر 2023ءکو وسطی لندن سے شروع ہونیوالے تاریخی ملین مارچ کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرتے ہوئے تحریر کررہا ہوں۔ ”برطانوی تاریخ“ کا لندن میں اسرائیل کیخلاف ہونیوالا یہ پہلا ایسا تاریخی مظاہرہ تھا جس میں مظاہرین نے اسرائیل سمیت امریکہ اور برطانیہ بشمول برطانوی وزیراعظم رشی سنک کو اسرائیل کا دوست قرار دیتے ہوئے شہید فلسطینی بچوں کے وحشیانہ قتل کا برابر کا شریک ٹھہرایا۔ مظاہرین نے بڑے بڑے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر صہیونی اسرائیلی افواج کی معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کی تصاویر اور نعرے درج تھے۔ ان بینرز پر ”غزہ پر بمباری بند کرو“۔ ”اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے“۔
اسرائیل کو اپنے جنگی جرائم کا حساب دینا ہوگا۔ اسی طرح امریکی صدر جوبائیڈن‘ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن یاہو اور برطانوی وزیراعظم رشی سنک کی تصاویر کے پوسٹر چسپاں تھے جن پر لکھا تھا کہ یہ تینوں افراد ہمیں درکار ہیں۔ بعض فلسطینی خواتین اور بچوں نے ”بچوں کا قتل بند کرو“ کے بینرز کے ہمراہ شہید ہونے والے بچوں کی تصوراتی نعشیں بھی اٹھا رکھی تھیں جو اسرائیلی افواج کے جاری ان وحشیانہ اقدام کو انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے فوری انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ غزہ فلسطینی شہریوں‘ بچوں اور عورتوں پر ڈھائے مظالم اور صہیونی اسرائیلی افواج کی جانب سے سلسلہ وار کی جانیوالی وحشیانہ بمباری کو فوری روکنے اور سیزفائر کے سلسلہ میں اس تاریخی مظاہرہ کا انعقاد Plastin soliderity campaign اور Aqsah of Friends سمیت مختلف تنظیموں نے کیا تھا۔ آرگنائزر کے مطابق اس مظاہرہ میں ایک ملین افراد نے شرکت کی جبکہ پولیس ذرائع کے مطابق مظاہرہ میں تقریباً ہاف ملین افراد شریک ہوئے۔ اس تاریخی مظاہرے کا آغاز ایک بجے دوپہر لندن کے تاریخی ہائیڈ پارک سے ہوا۔ حکومت اور میٹرو پولیٹن پولیس کمشنر کے مابین امن و امان کی صورتحال اور مظاہرین کی بھاری تعداد کو کنٹرول کرنے کے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق جہاں سٹی پولیس‘ ٹریفک پولیس‘ برٹش ٹرانسپورٹ پولیس‘ ایم آئی فائیو اور Sussex کاﺅنٹی پولیس کی نفری بڑھائی گئی وہاں لندن انڈر گراﺅنڈ ریلوے سسٹم کی چھ مصروف ترین لائنوں اور مرکزی لندن کے متعدد بس اور ٹیکسی روٹس کو بھی ساڑھے تین بجے دوپہر تک بند کر دیا گیا۔ یہ اقدام انڈر گراﺅنڈ اسٹیشنوں پر مظاہرے میں برطانیہ بھر سے آنیوالے مظاہرین کی بڑی تعداد کے پیش نظر اٹھانا پڑا۔
لندن کے ہائیڈپارک اسٹیشن سمیت پکاڈلی لائن کی ہیتھرو اور آکسبرج لائن کھلی رکھی گئیں۔ مظاہرے کیلئے پولیس نے ہائیڈپارک کارنر سے وکٹوریہ‘ دریائے ٹیمز اور دریا کے پار امریکی سفارتخانہ تک کے مختلف روٹس کی دو پولیس ہیلی کاپٹر مانیٹرنگ کرتے رہے مگر حکام کی جانب سے سکیورٹی اور مظاہرین کی بھاری تعداد کے پیش نظر ہائیڈ پارک کارنر کا روٹ دیا گیا تاکہ مظاہرین کو پیدل چلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پارک لین سے
Duke of Wellinton Place
اور پھر براستہ Place Grosvernior سے گزرتے ہوئے اس مارچ کو دیکھتے ہوئے انسانوں کے سمندر کا گمان گزر رہا تھا۔ اس بارے میں روٹ کے سربراہ چیف انسپکٹر سے مظاہرین کی (جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا) تعداد کے بارے میں جب پوچھا تو چیف انسپکٹر نے ”پرڈکشن فگرز‘ کا سہارا لیتے ہوئے ہلکی مسکراہٹ میں کہا کہ تعداد بلاشبہ زیادہ ہے جس کا بحیثیت جرنلسٹ آپ مجھ سے بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں؟ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اسی شاہراہ پر واقع ایک ہوٹل کی عمارت پر فلسطینی گروپ کے دو نوجوان چڑھتے نظر آئے جنہوں نے ”ہوٹل پرچم“ پول پر فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے فوراً بعد یہ نعرہ لگایا کہ برطانوی ہوم سیکرٹری بیورمین سے وزارت داخلہ کا قلمدان فوراً واپس لیا جائے۔ یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم رشی سنک اور وزیر داخلہ سویلا بیورمین لندن میں ہونیوالے مذکورہ مظاہرہ کے قطعی حق میں نہ تھے۔ رشی اور سویلا کا میٹروپولیٹن پولیس کمشنر Rowly Mark Sir سے مبینہ طور پر استفسار کیا تھا کہ پولیس 11 نومبر کے مظاہرے کی اجازت نہ دے مگر سرمارک کا استدلال تھا‘ پرامن مظاہرے کی رولز کے مطابق اجازت ہونی چاہیے کہ عوام کا یہ بنیادی حق ہے۔ سرمارک رولی نے بلاشبہ یہ فیصلہ دیکر برطانوی پولیس کے تمام شعبوں کا سر فخر سے بلند کر دیاہے۔اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ مظاہرین کے پرزور مطالبہ کے اگلے ہی چند گھنٹوں بعد وزیراعظم رشی سنک نے سویلا بیورمین کو وزیر داخلہ کے منصب سے برطرف کر دیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ برطانوی وزیر داخلہ بیورمین جن کی زبان درازی پر انکی اپنی ٹوری پارٹی کے بعض سینئر رہنما بھی مبینہ طور پر اکثر پریشان ہیں‘ اگلے روز ”دی ٹائم“ میں لکھے نفرت انگیز آرٹیکل میں جس میں فلسطین کے حق میں کئے جانیوالے اس مظاہرہ کیخلاف ہی زہر نہیں اگلا‘ میٹروپولیٹن پولیس تک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اب زیادہ منہ زور ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں وزیر داخلہ کے منصب سے اتارنے کی عوامی مہم اب مزید زور پکڑ چکی ہے۔ اسرائیلی وزیر فاع کے حالیہ اس بیان کے بعد کہ غزہ پر ایٹم بم بھی گرایا جا سکتا ہے۔ برطانیہ سمیت دنیا کے مہذب ترقی یافتہ ممالک میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی ”غزہ“ کو بچوں کا قبرستان قرار دے چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگلے روز برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ نازشاہ غزہ کے بچوں کی حالت پر اپنے خیالات کا جب اظہار کر رہی تھیں تو دوران اجلاس و آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ پر بمباری اور بچوں کی شہادتوں پر فوری آواز اٹھائی جائے۔ صہیونی اسرائیل کی یہ بھی کوشش ہے کہ غزہ کو سربمہر‘ حماس کا خاتمہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کر دی جائے تاکہ مستقبل میں فلسطینی اور انکی آنیوالی نسلیں اپنی آزاد سرزمین کا نام ہی نہ لے سکیں۔ ایسی گھناﺅنی صہیونی سوچ ہے جس میں اسرائیل شاید کبھی کامیاب نہ ہو سکے۔ ممکنات میں ہے کہ جس روز یہ سطور شائع ہوں‘ سیزفائز ہو چکا ہو تاہم لندن کے اس تاریخی پرامن مظاہرہ کو عالمی سطح پر بلاشبہ ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ Raciest تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ نے حسب معمول اپنا رنگ دار کارڈ استعمال کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی جس پر 126 افراد کو گرفتار کیا گیا۔