اسٹیبلشمنٹ کی خواہش اور مولانا فضل الرحمن کے خیالات!!!!!
دل سے جو بات نکلتی اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
میں نے مولانا فضل الرحمان کا ایک بیان پڑھا تو فوری طور پر یہ شعر ذہن میں آیا لیکن یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کیا واقعی مولانا نے جو کہا ہے دل سے کہا ہے یا پھر دماغ استعمال کیا ہے یا پھر انہوں نے ضرورت محسوس کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بارے مثبت بات کرنی ہے۔ آپ اسے کوئی بھی رنگ دے سکتے ہیں۔ کسی بھی حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کو سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے اور متحد ہو کر ملک کی ترقی کے تناظر میں بہتر کہا جا سکتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ "اسٹیبلشمنٹ ملک کو طاقتور بنانا چاہتی ہے۔ ا±نہیں بلیک میل کیا جارہا ہے ایک ایجنڈے کے تحت ایسی حکومت قائم کی گئی کہ ملکی معیشت کا خاتمہ کر دیں، اتنی معاشی تباہی حادثہ نہیں منصوبہ بندی کے تحت ہوئی ہے۔"
مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو خیالات عوام کے سامنے رکھے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں بنیادی طور پر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو متحد ہو کر آگے بڑھنے اور ملکی مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھنا ہو گا۔ اس ملک کی ترقی اور بہتری میں سب کی خوشیاں اور ترقی چھپی ہوئی ہے۔ اگر ملک کی معیشت کو بہتر بنانے، دفاع کو مضبوط تر کرنے، نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے، معاشی اصلاحات کرنے پر توجہ نہیں دیں گے تو سب کے لیے مشکلات ہوں گی۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کو متحد ہو کر ہی آگے بڑھنا ہے۔ آگے بڑھنے کے اس سفر میں ایک ایک قدم سب کو پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو کسی کو برا نہیں منانا چاہیے۔ اپنے موقف میں لچک ملک کی بہتری کے لیے ہے اور اگر کوئی اس سلسلے میں پہل کرتا ہے تو اسے نشانہ بنانے کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کو مضبوط اور توانا بنانا چاہتی ہے لیکن اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ ان دنوں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی اختلافات کو بنیاد بنا کر عوام کو اکسانے میں مصروف ہیں۔ کیا 2024 کا الیکشن بھی جھوٹے وعدوں، نعروں اور نفرت کی بنیاد پر لڑا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس گندی سیاست سے باہر نکلنا ہے۔ ہمیں ملک و قوم کی تعمیر کے لیے تعمیری خیالات کو لے کر سیاست کرنی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ "آج ان لوگوں کو قوم کے سامنے بے نقاب ہونا چاہیے، آج ملک کو معاشی بحران کا شکار بنایا جا رہا ہے، ہماری فوج اور بیوروکریسی کو بلیک میل کیاجا رہا ہے۔ قیام امن کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ جو لوگ ملک کے مجرم ہیں خیبرپختونخوا کی سیاست کو ان کے حوالے کیا جا رہا ہے، ہمیں بھی کہاجاتا ہے کہ ان سے اتحاد کریں، ہمیں کامیابی ہوگی لیکن ہم تیار نہیں، ہم نے غیرت کی سیاست سیکھی ہے۔" جب ہم اتحاد کی بات کرتے ہیں تو اس میں ملک کا مفاد اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنامنشور اور سیاسی
سوچ ہے۔ مولانا کو کسی دباو¿ میں آئے بغیر اپنی سیاست کرنی چاہیے ان کے ووٹ ہوں گے سیٹیں ہوں گی تو یقینا وہ اسمبلی میں جائے اور ان کے پاس مطلوبہ تعداد ہوئی تو وہ حکومت بھی بنائیں گے کوئی انہیں روک نہیں سکتا وہ جس سے چاہیں اتحاد کریں جس سے چاہیں نہ کریں یہ ان کی اپنی مرضی ہے لیکن جہاں ملک کی تعمیر و ترقی کا معاملہ ہو وہاں انہیں سیاسی مخالفین کا بھی ساتھ دینا چاہیے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے میں ان صفحات پر بہت لکھا گیا ہے اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے موقف پر میں نے بہت تنقید کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں لیکن شاید ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہو گا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے جو ہاتھ ہے کیا اسے نہیں کاٹنا چاہیے۔ کیا ٹی ٹی پی یا اس کے سہولت کاروں کو مکمل آزادی دے دینی چاہیے۔ اگر افغان حکومت بنیادی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو پاکستان دو طرفہ تعلقات کیسے بہتر بنا سکتا ہے۔ پاکستان کی تو ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ ہمسایوں سے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔ افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی خدمات اور قربانیاں کیا کسی سے ڈھکی چھپی ہیں۔ کیا چار دہائیوں سے زائد وقت میں بھی قربانیوں کے باوجود بھی پاکستان کی افغان پالیسی پر کسی کو کسی طرح کا شک ہو سکتا ہے۔ اس لیے مولانا کو اس معاملے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے موقف کے ساتھ دنیا کے سامنے پاکستان کا موقف پیش کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ "کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان اور افغانستان کو لڑا رہی ہیں، صدیوں سے ہمارے افغانستان سے تعلقات ہیں۔ ان کی داخلی سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، افغانستان سے دو طرفہ تعلقات کیلئے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔" اگر کوئی لڑانا چاہتا ہے تو مولانا کو اس لڑائی کرانے والے کے بجائے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی حمایت میں آگے آنا چاہیے۔
آخر میں محمد ابراہیم ذوق کا کلام
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے
پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاو¿ں
پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں
یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے
ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آو¿ سنور جائیں گے