سفیر حق اشتیاق چوہدری اوروطن عزیز کے دکھی طبقات
پاکستان میں بظاہرلیڈروں کی کمی دکھائی نہیں دیتی لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ میڈیا میں انگنت راہنماو¿ں کے نرم گر م بیانات اور روز و شب کی مرغن سرگرمیوں کے باوجود ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہمارا وطن اس وقت بہت سے بحرانوں کا مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو راہنمائی کا دعوی نہیں کرتے لیکن پاکستان کے دکھی عوام کی دلجوئی اورعملی معاونت کے ساتھ ساتھ فکری راہنمائی ،قانونی معاونت اور مسائل کے خاتمے کےلئے ماتحت عدالتوں سے لےکر سپریم کورٹ تک عام لوگوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے وکیل اشتیاق چوہدری ایسے لوگوں میں بہت نمایاں ہیں۔ گزشتہ روزمیں نےdaily nation میں ان کا ایک تازہ مضمون پڑھا تو مجھے کئی برس پہلے ان کے والد مرحوم کے حوالے سے ایک کالم یاد آ گیا۔اس کالم میں اشتیاق چوہدری سے زیادہ ان کے والد چوہدری اللہ رکھا سمسیالوی کا تذکرہ تھا جنہوں نے اولمپک گیمز میں پاکستان کے لئے اعزاز حاصل کیا اس سے پہلے ایشیائی گیموں میں بھی انہوں نے ریکارڈ قائم کیاتھا۔خدمت خلق میں دور دورتک ان کا شہرہ رہا اور خدمت خلق کا جذبہ جیسے ورثے میں اشتیاق چوہدری کو مل گیا۔ پاکستانی معاشرے میں ایک وقت وہ بھی تھا جب مولویوں کو روائتی انداز رکھنے کی وجہ سے زیادہ پذیرائی نہیں ملتی تھی ایسے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسا عالم دین جب سامنے آیا جو دین کی سچائیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے پر قادرتھے تو وطن عزیزکے ایک وسیع حلقے میں انہیں پذیرائی ملی۔ اشتیاق چوہدری کا گھرانہ بھی ایسے خاندانوں میں شامل تھا جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی دینی اور روحانی قیاد ت کودل وجان سے قبول کیا۔اسی پس منظر میں اشتیاق چوہدری کی اٹھان شروع ہوئی اور تحصیل شکر گڑھ کی منہاج لیگ کی سربراہی سے شروع ہونے والا سفر سیکرٹری انگلش لٹریری سوسائٹی ایف سی کالج کے راستے مرکزی صدر مصطفوی سٹوڈنٹس پاکستان اور ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے زیر سایہ ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی لیگل برانچ کے سربراہ تک پہنچا۔ پاکستان عوامی تحریک کے چیف آرگنائزر تھے تواہل سیاست نے ان کا نیا رنگ دیکھا اور اب پاکستان عوامی محاذ کے سربراہ ہیں تو قانون کی حکمرانی عوامی حاکمیت حقیقی آزادی اور خوشحال پاکستان کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ایک دانشور کے طور پر ان کو پہلی بار میں نے پاکستان مزدور محاذ کے جنرل سیکرٹری اور ممتاز مشنری جریدے منشور کے ایڈیٹر شوکت چوہدری کے ہمراہ مزدور محاذ کے لاہور کے صدر محمد اقبال ظفر کے گھر ماہانہ سٹڈی سرکل کے اجلاس میں دیکھا۔ انہوں نے موضوع پر سیر حاصل گفتگو بھی کی اور شعرسنانے کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے قد کے والد کی یاد میں اپنی کتاب، میری محبت میرے ابو، کا تذکرہ بھی کیا۔ ترقی پسند تحریکوں سے ان کی وابستگی کے کئی پہلوبھی سامنے آئے۔بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے دامن میں ان کی اشتیاق چوہدری اینڈ لا ایسوسی ایٹس نامی لا فرم کا دفتر گویا ملک بھر کے محنت کشوں کی تنظیموں سے وابستہ متاثرین کا مرکزنظر آنے لگا۔ یہیں سٹڈی سر کل کی نشستیں بھی ہونے لگیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔لاہور ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کتنے ہی مقدمات میں انہوں نے انصاف کے حصول کے لئے اور سچ کوسامنے لانے کے لئے جان لڑائی اور کامیابی حاصل کی۔عدلیہ بحالی تحریک سمیت کئی سیاسی مارچوں کا مرکزی کردار رہے۔ جسٹس فار زینب ،پانامہ کیس ، سمیت انگنت اہم مقدمات کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انٹلیکچوال لیول پر ہمہ وقت مصروف رہنے والے اشتیاق چوہدری نے خود تو انگریزی اور اردو میں اداس آنکھیں، میری محبت میرے ابو ،راہنمائے پولیس تفتیش، know your rights سمیت متعدد کتابیں لکھی ہیں جن کی تقریبات لاہور ہائی کورٹ بار کے علاوہ مختلف علمی ادبی فورموں پر ہوتی رہی ہیں اور جن کے مقررین اور مبصرین میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مختلف بارز کے عہدیداروں اور ایس ایم ظفر، حامد خان، سردار لطیف کھوسہ اور ڈاکٹر سید الوالحسن نجمی ، فادر جیمز چنن، شوکت علی چوہدری، خورشید احمد چوہدری اور محمد یعقوب جیسے بڑے قد کے لوگ شامل ہیں لیکن اب ان کے نام اور کام کے حوالے سے سینئر صحافی اور دانشور مقصود گوہر نے سفیر حق کے عنوان سے 400 صفحات پر مبنی ایک جامع کتاب مرتب کی ہے جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چوہدری اشتیاق کی ذات کے کتنے اور پہلو تھے جوان کے قریبی دوستوں سے بھی چھپے ہوئے تھے۔ سفیر حق بنیادی طورپر اشتیاق چوہدری کی زندگی ان کے خاندان اورخاص طور پر ان کے والد کی ملک و قوم کے لئے خدمات چوہدری اشتیاق کی سیاسی جدو جہد اور عدالتی محاذ پر ان کی وطن کے پسے ہوئے طبقات کے لئے آئینی جدو جہد کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب کو عملی صورت تک لانے میں ایک بڑا کردار ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری اے ایم شکوری کا بھی ہے۔ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر اس سوسائٹی کے سربراہ رہے ہیں اور اشتیاق چوہدری نے ان کی نگرانی میں اس کے لیگل ونگ کے صدر کے طور پراعلی عدلیہ میں بےشمار دکھی لوگوں کو ان کے حقوق دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مقصود گوہر نے ان سینکڑوں مقدمات میں سے چند اہم مقدمات کو بھی کتاب کا حصہ بنایا ہے اورہر کیس کے ساتھ کچھ مثبت کمنٹس بھی لکھے گئے ہیں۔ہمارے ہاں بلا شبہ لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن کاش ان میں خود پسند ی اور خود غرضی کی بجائے اسی طرح کے جذبات ہوتے جس طرح اشتیاق چوہدری جیسی لیڈری کا دعوی کرنے والے لیکن انسانیت کے لئے رات دن کام کرنے والوں کے دل میں پائے جاتے ہیں۔