غدارانِ امتِ مسلمہ
تا ریخ گواہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے زوال اور خاتمے کا سبب بننے والے غدار کوئی غیر مذہب یا غیر ملکی نہیں تھے ، بلکہ ہم پیالہ ہم نوالہ اور قریبی رشتوں میں جڑے افراد جنھوں نے ہوسِ زر اور اعلیٰ رتبہ حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا ہو کر اسلامی ریاستوں کو ختم کروایا ،لیکن تاریخ میں انھیں نمک حرام ، کلان، سرکش، وطن دشمن ، بد عہد اور غدار کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی غدارانِ امتِ مسلمہ کے لیے علامہ محمد اقبال نے لکھا کہ
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ آدم ،ننگِ دین، ننگِ وطن
میر جعفر از بنگال نواب سراج الدولہ کی فوج میں سپہ سالار تھا، میر جعفر ایک بد فطرت شخص ہونے کے ساتھ تخت بنگال کو حاصل کرنے کا خواہاں تھا، نواب سراج الدولہ اپنے نانا علی وردی خان کی وفات کے بعد صرف 23 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے تھے، میر جعفر نوجوان نواب کو ہٹا کر خود نواب بننے کاخواب دیکھ رہا تھا، لہٰذا اس نے جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرکے انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا، جس کے بعد انگریزوں کا بنگال پر ہر طرح سے قبضہ گیا۔ اس ننگِ وطن کی نواب بننے کی لالچ اور غداری کی وجہ سے بنگال میں اسلامی حکومت ختم ہوئی اور بر صغیر پر انگریزوں کا قبضہ 190سال تک برقرار رہا۔
میر صادق از دکن ہندوستان میں میسور کے سلطان ٹیپو سلطان کا وزیر تھا، سلطان حیدر علی نے میر صادق کو معزول کیا لیکن بعد میں بحال بھی کر دیا تھا، اسی رنجش اور توہین کے انتقام نے ٹیپو سلطان کی مجلس اصلاحات جس کا نام ’زمرہ غم نباشد ‘ رکھا تھا، میر صادق نے اسے ناکام بنا دیا ، میر صادق نے اپنے اثر رسوخ پر گرفت مضبوط کر رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ سلطان تک کوئی خبر پہنچنے نہیں دیتا تھا، ٹیپو سلطان کو اسی وجہ سے تیسری اور چوتھی انگلو میسور جنگ میں شکست ہوئی، سرنگا پٹم کے محاصرے کے آخری چار دنوں میں انگریزوں کی آمد کی خبر سن کر ٹیپو سلطان ڈگی دروازے سے باہر نکلا تو میر صادق نے دوروازہ اندر سے بند کروا کر انگریزوں کو قلعہ کی فصیل پر سلطان کی موجودگی کی اطلاع دے دی، انگریز فوج نے قلعہ کے تین طرف سے اپنی فوج ہٹا کر قلعہ کی فصیل پر گولیاں چلائیں جہاں سلطان موجود تھا، میر صادق نے سلطان سے غداری کی اور سلطنت ِ برطانیہ کا ساتھ دیا میسور کی اس جنگ کے دوران ٹیپو سلطان شہید ہوا، سلطان کی شکست سے اسلامی ریاست میسور ختم ہوئی۔
بغداد عراق کا ننگِ وطن ابنِ علقمی عباسی خلافت میںآخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کا وزیر تھا، غدارانِ حکومت ابنِ علقمی خلیفہ کی مجلس میں بیٹھتے ہوئے منگولوں سے روابط بھی قائم کیے ہوئے تھا اور خط وخطابت کے ذریعے انھیں بغداد پر حملہ کرنے اور ہلاکو خان کو بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر آمادہ کرتا رہا، ہلاکوخان کے بغداد پر حملے کے نتیجے میں مو¿رخین کا اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے دس لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، تاریخ کی کتب سے عیاں ہے کہ بغداد کی گلیاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں، ان لاشوں سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر اپنا خیمہ لگانا پڑا، اس طرح دجلہ میں بھی دریائے دجلہ کا مٹیالا پانی پہلے کچھ دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہی مائل ہوگیا، شہر کی گلیوں کوچوں سے خون بہہ کر دریا میںشامل ہونے سے دریا سرخی مائل رہا ہلاکو کے سپاہیوں نے شہر کے کتب خانوں سے نادر محفوظ کتب دریا میں پھینک دیںجن کی سیاہی سے دریا کی سرخی میں کمی ہوئی۔
بغدادا بن علقمی کی مخالف فرقہ پرستی کی وجہ سے تہس نہس ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے ارتقا کو پہنچی کہ منگولوں نے مسلم تہذیب کو تباہ کیا جس سے مغرب نے مذاہب کی تفریق پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کیے، نظام کو بدلنے کی جستجو جاری نظام سے بغاوت کے زمرے میں آتی ہے لیکن وطن اور قوم کے ساتھ دھوکہ دہی سے اٹھائے گئے اقدام غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ نے اناطولیہ میں ازمیر پر یونان کے قبضے کے بعد شروع ہونے والی مقامی مزاحمتوں کو روکنے کے لیے مصطفی کمال کو روانہ کیا لیکن مصطفی کمال نے سرکاری احکامات پر عمل کرنے کے بجائے یونان اور اتحادیوں کے قبضے کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو منظم کرنا شروع کر دیا۔
اتحادی ممالک نے جب عثمانی سلطان محمد کو معاہدہ لیوزان کے لیے وفد نامزد کرنے کی دعوت دی تو مو¿رخین کے مطابق اس موقع پر مصطفی کمال نے سیاسی حربے استعمال کر کے یکم نومبر 1922ءکو اسمبلی کا اجلاس بلا کر سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی منظوری حاصل کرلی، سلطان محمد ششم کو معزول کر کے 29 اکتوبر 1923ءکو جمہوریہ ترکی قرار دے دیا، مصطفی کمال اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے، 4 مارچ 1924ءکے دن خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی عثمانی شاہی خاندان کو راتوں رات گھریلو لباس میں ترکی سے بے دخل کر دیا۔ علامہ اقبال نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر کہا کہ
چاک کردی ترک ِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ