• news

امریکی برطانوی سفارتکاروں کی سیاستدانوں سے ملاقاتوں پر اٹھتے سوالات

پاکستان میں عام انتخابات کے قریب آتے ہی ملکی سیاست میں امریکہ اور برطانیہ متحرک ہو گئے ہیں۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین اور سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتیں کیں جبکہ برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے کراچی میں ملاقات کی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور ڈاکٹر عاصم بھی موجود تھے۔ 
 میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفیر نے جاتی امراءرائے ونڈ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہیں پاکستان سے متعلق امریکی ترجیحات سے آگاہ کیا اور پاکستان کی سیاسی، اقتصادی صورتحال اور عام انتخابات کی تیاریوں پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس دوران پاکستان امریکہ مشترکہ شراکت داری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور مختلف مواقع پر امریکی رہنما¶ں سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام امریکی رہنما پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ آج پاکستان کو درپیش لاتعداد مسائل اور بحرانوں سے نکلنے میں پاکستان کے عوام ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کو قائدانہ کردار سونپ کر اس پر اپنے بھرپور اعتماد کے اظہار کے لئے تیار ہیں۔ اس موقع پر دونوںرہنماﺅں نے پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون پر گفتگو کی۔ نواز شریف نے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کا معاملہ بھی امریکی سفیر کے روبرو اٹھایا اور فوری جنگ بندی پر زور دیا۔ امریکی سفیر نے ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں جس کے دوران پاکستان امریکہ تعلقات کی مضبوطی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان سے ملاقات کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کی میزبانی میں منعقد ہونے والی نشست میں مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے عہدے داران بشمول سابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ، سابق وزیر اعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ، سینیٹر رانا محمود الحسن، ایاز خاں نیازی، سابق ایم این اے مینا لغاری، خالد خاں خاکوانی، نتاشہ دولتانہ، شہناز سلیم، عبدالقادر گیلانی، ایاز مجتبیٰ گیلانی اور سابق صوبائی وزیر علی حیدر گیلانی بھی شریک ہوئے۔ اس نشست میں جنوبی پنجاب کے سیاسی منظرنامے پر مفصل بات چیت کی گئی۔ اسی طرح امریکی سفیر نے استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین سے ان کی اقامت گاہ پر ملاقات کی جس میں اسحاق خاکوانی اور عون چودھری بھی شریک ہوئے۔ دوران ملاقات پاک امریکہ تعلقات اور اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ ان قائدین اور امریکی سفیر کے مابین آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی مفصل بات چیت ہوئی اور امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں انتخابات کا شفاف انعقاد چاہتا ہے۔ جہانگیر ترین نے بتایا کہ ان کی پارٹی بھرپور انداز سے اپنی انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں شروع کر چکی ہے اور عام انتخابات کے لئے تیار ہے۔ 
اسی طرح برطانوی ہائی کمشنر نے کراچی میں آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان برطانیہ تعلقات کے فروغ پر بات کی جبکہ آصف علی زرداری نے شاہ چارلس کے جنم دن کے حوالے سے مسرت کا پیغام دیا اور ڈیوڈ کیمرون کے وزیر خارجہ بننے پر نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔ انہوں نے برطانیہ پر غزہ میں مصالحتی کردار ادا کرنے پر بھی زور دیا۔ 
ویسے تو کسی ملک میں دوسرے ممالک کے سفارتکاروں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں روٹین کا معاملہ سمجھی جاتی ہیں اور ہر سفیر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جس ملک میں تعینات ہے اس کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کی بہتری میں معاون بنے اور اس کے شہریوں کو اپنے ملک کے لئے ویزے یا سفر کی دوسری رکاوٹیں درپیش ہیں تو انہیں دور کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح سفارت کار دونوں ممالک میں تجارتی ، ثقافتی تعلقات مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا سازگار بنانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں جس سے پرامن بقائے باہمی سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں۔ تاہم امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں نے پاکستان میں انتخابات کا عمل شروع ہونے کے بعد جس انداز میں پاکستانی سیاستدانوں سے کھلے عام ملاقاتیں کی ہیں اور انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کا تقاضہ کیا ہے، اس سے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے خالصتاً اندرونی معاملات میں مداخلت کا تاثر ہی اجاگر ہوا ہے چنانچہ ان انتخابات کے تناظر میں عملاً دیوار سے لگی سابق حکمران پی ٹی آئی کو بھی بالخصوص امریکی سفیر کی میاں نواز شریف سے ملاقات پر اپنے تحفظات کے اظہار کا موقع مل گیا ہے جس کے ترجمان کے بقول امریکی سفیر کی نواز شریف سے ملاقات پاکستان کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت ہے اور ملاقات کے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مندرجات اس سازش کا تسلسل ہیں جس کے تحت پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی ترجمان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے برطانوی ہائی کمشنر کی آصف علی زرداری سے ملاقات پر اور امریکی سفیر کی یوسف رضا گیلانی سے ملاقات پر کیوں ایسے تحفظات کا اظہار نہیں کیا تاہم امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں کی پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کھلے عام سرگرمیاں ایک دوسرے کے مخالف سیاستدانوں کی جانب سے اعتراض کی گنجائش نکالتی رہیں گی اور اس سے یقینی طور پر پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا سوال بھی اٹھے گا۔ اگر امریکی سفیر کی جانب سے پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر بات کی گئی ہے تو اس سے یقینی طور پر الیکشن کمشن کا غیر جانبدارانہ کردار متاثر ہو سکتا ہے اور بالخصوص پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے جاری رکھی گئی اپنی سیاست کو مزید بھڑکانے کا موقع مل سکتا ہے۔ 
اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان کا سسٹم خالصتاً آئین و قانون کی منشا اور اس کے تقاضوں کے مطابق کام کر رہا ہے جس میں ہر رجسٹرڈ پارٹی کو انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور اپنے امیدوار انتخابی میدان میں اتارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور اگر قانون کسی پارٹی کو اس کی مخصوص سرگرمیوں کے باعث انتخابی میدان میں اترنے کی اجازت نہ دے یا کسی امیدوار کے لئے کوئی قانونی اور آئینی قدغن آڑے آ جائے تو یہ پاکستان کا اپنے گھر کا معاملہ ہے جس نے آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق طے ہونا ہے۔ کسی ملک کا سسٹم وہاں کے آئین و قانون کی عملداری کے ساتھ ہی چلتا ہے اور اس کا کوئی شہری آئین و قانون پامال کرتا ہے تو وہاں کے مروجہ عدالتی نظام کے تحت اس کی پکڑ کی جاتی ہے جس میں لازمی طور پر تمام فریقین کے لئے انصاف کی عملداری کے تقاضے نبھائے جاتے ہیں۔ اس مروجہ سسٹم پر بیرون ملک سے کسی قسم کی مداخلت یا ڈکٹیشن اس ملک کی آزادی و خودمختاری میں مداخلت سے ہی تعبیر کی جائے گی۔ بادی النظر میں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں کی پاکستانی سیاسی قیادتوں سے ملاقاتیں پاکستان کے سسٹم میں مداخلت ہی سے تعبیر ہوں گی۔ اس حوالے سے سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا پاکستان کے سفارتکاروں نے کبھی امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں وہاں کے سیاسی، قانونی اور آئینی معاملات پر ایسی کوئی سرگرمیاں کی ہیں جن سے ان ممالک کی خودمختاری میں مداخلت کا کوئی تصور اجاگر ہوتا ہو۔ ایک دوسرے کی آزادی و خودمختاری کا احترام تو ویسے بھی یو این چارٹر کا حصہ ہے۔ پھر کسی ملک کو اپنے تئیں یہ حق کیونکر حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے انتخابی عمل میں مداخلت کریں اور وہاں کے سیاستدانوں کو ڈکٹیشن دیتے نظر آئیں۔ 
ہمارا قومی تشخص ہماری معیشت پر مسلط ہونے والے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے باعث پہلے ہی خراب ہو چکا ہے۔ اب اگر ہمارے انتخابی عمل میں بھی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کل کو کوئی بھی ملک ہم پر اپنا رعب جماتا نظر آئے گا چنانچہ امریکی ، برطانوی سفارتکاروں کی ان سرگرمیوں کا پاکستان الیکشن کمشن کو بھی نوٹس لینا چاہئے اور سیاسی قیادتوں کو بھی احتیاط کے تقاضے ملحوظ خاصر رکھنے چاہئیں ورنہ انتخابات میں کسی جماعت کی کامیابی کی اس کے مخالفین کی جانب سے قبولیت مشکل ہو جائے گی۔

ای پیپر-دی نیشن