• news

دم گھٹا جاتا ہے اب لاہور میں

گوجرانوالہ سیشن کورٹ نوید انور نوید بار ھال میں اپنی مخصوص ٹیبل ،دوستوں کی منڈلی سے سجائے سلیمان کھوکھر کالم نگار سے فرمائش کرنے لگے۔ ”آپ لاہور آتے جاتے رہتے ہیں۔ کسی روز ہمیں بھی ساتھ لیتے جائیں“۔ جواب میں عرض کی ”اب لاہور کہاں جانا ہوتا ہے ؟ لاہور آنا جانا تو کب کا ختم ہو چکا۔ اب لاہور شہر زندہ بھی نہیں؟ملاقات ، محفل ، گپ شپ ، جپھی معانقہ زندوں لوگوں سے ہوتا ہے مردوں سے نہیں۔زندہ دلان لاہور اب زندہ بھی کہاں ہیں ؟“
زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے
سانس لیتے ہیں سو لئے جائیں۔
پھر وہ دن ہوا ہوئے جو شعیب بن عزیز کا لاہور سے فون آیا کرتا:”آرہے ہو نا؟“
اب اس پر غور ہونا چاہئے۔   بس 
تمہیں لاہور ہونا چاہئے۔ 
اور ہم جھٹ لاہور کی راہ لیتے۔ 
مہنگائی پہلے بھی تھی لیکن اتنی دردناک نہ تھی۔ پھر بھی حبیب جالب کو حیرت تھی کہ آٹا بیس روپے من ہے لیکن یار لوگوں کے ہاں اس پر بھی سناٹا کیوں ہے؟ آج دس کلو آٹے کا تھیلا 1400روپوں میں ملتا ہے۔ اس گرانی میں جب عام آدمی اپنی یافت سے بمشکل آٹا ہی پورا کر پاتا ہے ہمارے غیر ممالک میں مقیم 164 سول اور فوجی ریٹائرڈ افسران غیر ملکی کرنسی میں پنشن وصول کرتے ہیں ’پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاو گے۔ 
سائیں اختر لاہوری ”اللہ میاں تھّلے آ“کہتے کہتے آخر کار تھک ہار کر خود ہی اللہ میاں کے ہاں پہنچ گئے۔ وہ مہنگائی یوں لکھتے ہیں : 
میرے سوہنے اللہ میاں 
اللہ کردا 
تیرا وی کوئی اللہ ہندا 
جیہڑا تینوں ووہٹی دیندا 
نالے دیندا پتر دھیاں 
میرے سوہنے اللہ میاں 
تو ایہناں نوں پالن کارن 
ڈھڈ تندوری بالن کارن 
آٹے دال دا بھا جے پچھدوں 
ہٹی والا تینوں دسدا 
سو وچ ہوون کنیاں ویہاں 
میرے سوہنے اللہ میاں !
ترجمہ سے اس خوبصورت نظم کا حسن غارت نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اک سادہ سے زمانے میں گنتی سو پر ختم ہو جایا کرتی اور سو میں پانچ ویہاں(20)ہوتی تھیں۔ گنتی کا ایسے ہی چلن ہوا کرتا تھا۔ 
بھٹو کے اسلامی سوشلزم کے جواب میں جنرل ضیاءالحق کا خالص اسلام لایا گیا۔ پھر جنرل ضیاءالحق اپنی عمر میاں نواز شریف کو بخش کر دوسرے جہان سدھار ے۔ ہماری تاریخ یہی ہے کہ جب بھی لائے گئے کسی سیاسی لیڈر کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تو اس نے مقتدر حلقوں سے بے پروائی برتنی شروع کر دی۔پھر مقتدر حلقے بھی آرام چین سے کہاں بیٹھتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت کے خلاف مقتدر قوتوں کا شدید رد عمل۔ پھر اک وقت ایسا آیا جب عمران خان بھی عوامی مقبولیت کے نشے میں سرشار مقتدر قوتوں کو آنکھیں دکھانے لگے۔ آنکھیں دکھانے کی بھی خوب رہی۔ 
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
ان کو دے دوں نکال کر آنکھیں۔
وہ لاہور اب نہیں رہا جہاں مال روڈ ٹھنڈی سڑک ہوا کرتی تھی۔ لوئر مال سے اپر مال تک قہوے خانوں کا اک ہجوم ہوتا اور یار لوگوں کو وہاں بیٹھنے کی گھنٹوں فرصت بھی میسر ہوتی۔ یہ فائیو اسٹار ہوٹلوں پر ایک روپیہ پر ہیڈ چائے کا زمانہ تھا۔ ٹھنڈی سڑک پر وہ بڑے لوگ بھی شام کو سیر کرتے دکھائی دیتے جن کا ذکر نئی نسل کتابوں میں پڑھتی ہے۔ وہ امن چین کا زمانہ تھا۔ بھٹونے تمام عالم اسلام کے ملکوں کے سربراہ بلائے۔ لاہوریوں نے مال روڈ کے دونوں جانب کرسیاں بچھا کر انہیں دیکھا۔ بعض منچلے تو ان سے ہاتھ ملانے کو بھی لپکتے دکھائی دیئے۔ان دنوں عورتیں ، عورتیں ہوتی تھیں۔عورتوں میں سائیکل سواری کرتے ہوئے ، شرم حیا، عزت نفس کا احساس اور خود اعتمادی فراواں دکھائی دیتی۔ 
ادھر پچھلے پچاس برسوں میں میاں نواز شریف کا ہی آنا جانا لگا ہوا ہے۔ اس آنے کو کیا کہئے ، اس جانے کو کیا کہئے۔ میاں شہباز شریف کی کارکردگی کیلئے ناصر بشیر کا ایک شعر ہی کافی ٹھہرا۔ 
پیرس بنا رہے تھے اسے اہل انتظام 
ابر کرم نے شہر کو وینس بنا دیا۔
انہی دگر گوں حالات میں شعیب بن عزیز بول پڑے :
میرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا۔
پہلی مرتبہ بہت بری خبر سیف زلفی لائے تھے۔یہ وہی سیف زلفی ہیں جن کا مشہور ترانہ ہمارا پرچم پیارا پرچم، ناہید اختر نے گایا ہے۔ سیف زلفی کی اندوہناک خبر یوں تھی :
لاہور عجیب ہو گیا ہے
کوفے کے قریب ہو گیا ہے۔ 
جنرل ایوب خاں کے مارشل لاءکے زمانہ میں حبیب جالب نے کہا تھا:
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے 
تھا وطن ذہن میں کوئی زنداں تو نہیں تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کو اپنے نام کے ساتھ امرتسری ، لدھیانوی وغیرہ لکھنا اچھا لگتا۔ یہ وہی احساس ہے جس کے ہاتھوں مجبور میاں محمد شریف تمام تر عزت ، اقتدار اور مال کے باوجود اپنے نئے آباد کئے گاﺅں کا نام جاتی عمرہ رکھنے پر مجبور ہوئے۔ ناصر کاظمی نے اور طرح سے بات کی تھی :
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو۔ 
لیکن یہ سب کچھ بھولی بسری یادیں ہیں۔ اب لاہور ، لاہور نہیں رہا۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور پہلے نمبر پر ہے۔ سینئر بیورو کریٹ محترمہ صائمہ آفتاب آج کی تازہ خبر یوں لائی ہیں :
گندگی بدبو دھوئیں اور شور میں
دم گھٹا جاتا ہے اب لاہور میں۔

ای پیپر-دی نیشن