ڈاکٹر شاکر شجاع آ بادی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
شاکر شجاع آ بادی سرائیکی وسیب کا ایک معتبر حوالہ ہے جس کی شاعری آ ج زبان زد عام کی طرح ہر طرف اپنی دھوم مچا رہی ہے۔ اقتدار میں آ نے والے اقتدار سے محروم ہونے والے اور اقتدار کی خواہش رکھنے والے اس کے اشعار اکثر و بیشتر گنگناتے اور سناتے دکھائی دیتے ہیں۔ زبان کی لکنت کے باوجود قدرت نے شاکر شجاع آ بادی کے شعروں کو اظہارِ کا ایک توانا لہجہ عطا کیا ہے جو مجبور اور محروم طبقات کی ترجمانی کرتا ہے۔ شاکر شجاع آ بادی خود بھی پسماندہ اور مراعات سے محروم وسیب سے تعلق رکھتا ہے۔ غم روزگار اور بیماری نے اسے کبھی چین کا سانس نہیں لینے دیا۔ اس کے حال کی طرح اس کے بچوں کا مستقبل بھی بے یقینی وسوسوں اور خدشات کا شکار ہے۔ کئی مرتبہ حکومتی ایوانوں کی طرف سے اس کے لئے امداد اور انعام واکرام کے اعلانات تو ہوئے لیکن ان کے ملنے کی تصدیق نہیں ہو پائی البتہ انہیں حکومت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ سے کئی بار نوازا جا چکا ہے۔ اسلام آ باد میں کچھ عرصہ وہ زمرد خان کے تعاون سے زیر علاج بھی ریے مگر ابھی تک وہ اپنی مستقل بیماری سے نبرد آ زما ہیں۔ اکادمی ادبیات کی طرف سے امداد کا چیک بھی ملا جو ان کے مسائل کے خاتمے کے لئے ناکافی ثابت ہوا۔ حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے ا±نہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری کے اعزاز سے نوازا گیا ہے جو یقیناً اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے لئے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ اس لئے کہ کچھ شخصیات اداروں کے لئے باعث فخر و اعزاز ہوتی ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کی قدیم تاریخی اور نمائندہ یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ بہاولپور کے صحراو¿ں میں اسے ایک نخلستان کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک دور تھا کہ اسے کھجور مارکہ یونیورسٹی بھی کہا جاتا تھا اور دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے میں اس یونیورسٹی کی ڈگری کو کم اہمیت دی جاتی تھی۔ پھر ایک وقت آ یا کہ اس یونیورسٹی کی شہرت ملک کے طول و عرض میں خوشبو کی طرح پھیلنے لگی۔ علم کتاب اور ادب دوست وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے دور میں نہ صرف یونیورسٹی کی رینکنگ بہتر ہوئی بلکہ ان کے دور میں اس یونیورسٹی کا دائرہ کار اردگرد کے علاقوں تک پھیلا۔ ان کے دور میں شاندار فیسٹیول اور تقاریب کا انعقاد ہوا جس میں قومی سطح کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی شرکت ہوئی اور یوں سرائیکی وسیب کی محرومیوں اور پسماندگی کا شکار یونیورسٹی قومی دھارے میں شریک نظر آ نے لگی۔ ایسے میں کسی بدخواہ کی ایسی نظر لگی کہ ایک مذموم ایجینڈے اور مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے نہ صرف یونیورسٹی کو بدنام کر کے اس کی شہرت کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ کچھ عناصر کے مفادات اور انا کی خاطر ایک فرض شناس وائس چانسلر کو بھی قربان کر دیا گیا۔ سو اب ایک بار پھر یہ یونیورسٹی اپنے تشخص اور نیک نامی کے حصول کے لئے سرگرداں ہے۔ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والی بہت سی شخصیات اس وقت قومی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کر رہی ہیں اور یونیورسٹی کے تشخص کو نمایاں رکھے ہوئے ہیں سعید احمد شیخ انفارمیشن گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی اہم عہدوں پر فائز رینے کے بعد آ ج کل ریڈیو پاکستان کے ڈایریکٹر جنرل کی ذمہ داریاں نبھا ریے ہیں۔ انہوں نے سرائیکی وسیب کے نمائندہ شاعر خواجہ فرید رح کے حوالے سے قابل قدر تحقیقی کام کیا ہے۔ مسرت کلانچوی بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی فارغ التحصیل ہیں جنہیں حال ہی میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کمال بھی اس وقت قومی سطح پر آسمان صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں۔ وہ بھی اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ حال ہی میں انہیں پاکستان کے اہم علمی وادبی ادارے اکادمی ادبیات پاکستان کے بورڈ آف گورنر کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔ ہاں البتہ یونیورسٹی کے ارباب اختیار کو یہ تجویز ضرور دی جاسکتی ہے کہ اپنے اہنے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی ان تمام مذکورہ شخصیات کو بھی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے جو نہ صرف ان شخصیات کی علمی وادبی حیثیت کو تسلیم کرے گی بلکہ یہ بذات خود یونیورسٹی کے لئے بھی باعث اعزاز ہو گا۔ جہاں تک شاکر شجاع آ بادی کی اعزازی ڈگری کا تعلق ہے وہ اس اعزاز پر بہت خوش ہیں ڈگری لیتے وقت ان کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں لہراتی خوشی اور سرمستی اور طمانیت ہی ایک ایسا انعام ہے جو سب چیزوں پر بھاری ہے۔ اب حکومت اور حکومتی اداروں کو بھی چائیے کہ شاکر شجاع آ بادی کی دال روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے ساتھ اس کے علاج معالجے کا مستقل حل کرے مناسب ماہانہ وظیفہ مقرر کرے اور اس کے دونوں بیٹوں کی ملازمت کا بھی مستقل بندوبست کرے۔ اس کے انٹر پاس بچے کو سینٹری ورکر کی ملازمت دی گئی جو وہ جاری نہ رکھ پایا۔ ایک بیٹا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ملازمت کا امیدوار ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس کی ملازمت کا انتظام کر کے دعائیں لے تو شاکر شجاع آ بادی کی یہ اعزازی ڈگری سونے پر سہاگہ ہو جائے گی۔
سدا ہنجواں دی تسبیح کوں پھریندے شام تھی ویندی
انھاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نہیں۔ جنھاں دے
کہیں دے بالیں کوں کھڈیندے شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب پتہ نہیں کن کریندا ہیں۔ل
پلا خالی خیالیں دے پکیندیں شام تھی ویندی۔
میں شاکر وقت دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائینی
قلم خیرات ھے میڈی چلیدیں شام تھی ویندی۔