پیر 5 جمادی الاول 1445ھ، 20نومبر 2023ئ
اللہ تعالی نے شہبازشریف کو جھوٹے مقدمے میں عزت سے سرخرو فرمایا، مریم اورنگزیب
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کے اس بیان پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ پاکستان کی پون صدی سے زائد عرصے کو محیط تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس مملکت خداداد میں سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر کبھی کوئی سچا مقدمہ بنا ہی نہیں۔ ہاں، عام آدمی پر بننے والا ہر مقدمہ سو فیصد سچا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو پولیس اور عدالتیں عام آدمی سے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں کرتیں۔ ویسے پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں عام آدمی کا سب سے بڑا جرم ان ممالک میں پیدا ہونا ہے۔ اول تو کم وسیلہ آدمی کو پیدا ہونا ہی نہیں چاہیے اور اگر پیدا ہونا ناگزیر ہے تو پھر کسی ایسے ملک کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں وسائل کے کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑے، اور اگر یہ تجویز بھی قابلِ قبول نہیں تو پھر ترقی پذیر ملک میں پیدا ہونے کے بعد خود کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کے لیے اتنی ’محنت‘ کرنی چاہیے کہ وسائل کے انبار لگ جائیں، پھر کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا، بصورتِ دیگر اس کو وہ وہ کچھ بھگتنا پڑسکتا ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔
ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدار میں آنے والی ہر جماعت اپنے مخالفین کے خلاف ریاستی مشینری کو استعمال کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے اور بیوروکریسی اور پولیس بھی اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسے میں کسی فرد پر جھوٹا مقدمہ بن جانا کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہیں۔ لیکن یہاں تو ایسی کرامت بھی ہوچکی ہے کہ ایک زیر حراست سیاست دان ہسپتال میں زیر علاج تھے تو خود چیف جسٹس آف پاکستان نے ان کے کمرے سے شراب کی تین بوتلیں برآمد کیںلیکن جب وہ بوتلیں لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کے لیے بھیجی گئیں تو پتا چلا کہ وہ شہد اور زیتون کا تیل ہے۔
جے یوآئی نے ملک اور ریاست کو بچانے کی جنگ لڑی، مولانا فضل الرحمن
جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے سینئر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، لہٰذا اس اعتبار سے وہ نہایت عزت اور احترام کے قابل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھیں ہر طرح کے مزاحیہ بیانات کی اجازت دیدی جائے۔ جے یوآئی پاکستان کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جو مذکورہ بیان دیا ہے وہ اس لحاظ سے مزاحیہ ہی لگتا ہے کہ مولانا کے سوا پورے پاکستان میں شاید کوئی بھی یہ نہیں جانتا ہوگا کہ ملک اور ریاست کو بچانے کے لیے لڑی گئی یہ جنگ کب اور کہاں واقع ہوئی۔ خیر، یہ کوئی نئی بات نہیں، پاکستان میں ہر سیاست دان قریب قریب ایسے ہی بیانات دے کر اپنے کارکنان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ اور اس کی جماعت اس ملک کے لیے ناگزیر ہیں اور اگر انھیں کچھ ہوگیا تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
اسی سے یاد آیا کہ کینیڈا میں مقیم ایک صاحب سالانہ بنیادوں پر ریاست بچانے آیا کرتے تھے اور ان کے مریدین اس خدمت کے بدلے میں ان کی جو ’خدمت‘ کرتے تھے اس کی مدد سے وہ کینیڈا میں مبینہ طور پر تبلیغ مذہب کے لیے اپنے قیام کو باسہولت بنانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ ویسے یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ ان کے کینیڈا میں قیام کو کینیڈین حکومت کا تعاون بھی حاصل رہا کیونکہ انھوں نے اس قسم کی کوئی درخواست دے رکھی تھی کہ وہ ایک کم وسیلہ شخص ہیں، لہٰذا کینیڈین حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ گزشتہ چند برس سے وہ صاحب تو ریاست بچانے نہیں آتے اس لیے ممکن ہے کہ ان کی کمی پوری کرنے کے لیے یہ بوجھ مولانا نے اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا لیا ہو!
سٹی ٹریفک پولیس کی کارروائی، بغیر لائسنس اور کم عمر ڈرائیونگ پر 2 ہزار سے زائد مقدمات، سینکڑوں گاڑیاں بند
لاہور کی سٹی ٹریفک پولیس نے یہ تو بہت نیکی کا کام ہے جس پر اس کی ستائش واقعی بنتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، پانچ روز کے دوران کم عمر ڈرائیونگ پر 1860جبکہ بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر 210 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں اور سینکڑوں گاڑیاں تھانوں میں بند کردی گئی ہیں۔ چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور مستنصر فیروز نے کہا ہے کہ شہر میں 30 لائسنس دفاتر، 10 موبائل وینز اور 3 سنٹرز چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن کام کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ اس واقعے کے بعد شروع ہوا ہے جو لاہور کے ایک پوش علاقے میں پیش آیا اور جس میں ایک بااثر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد نے تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے چھے افراد کی جان لے لی۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر کسی بڑے واقعے، حادثے یا سانحے کے بعد ہی اس قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور وہ بھی چند روز کے لیے، پھر عوام مطمئن ہو جاتے ہیں تو ادارے اپنے کام ’معمول کے مطابق‘ کرنے لگتے ہیں۔ ویسے بھی عام طور پر اس مملکتِ خدا داد میں جب تک وزیراعلیٰ، وزیراعظم یا چیف جسٹس نوٹس نہ لیں تب تک پولیس کسی واقعے کے سلسلے میں کوئی اہم یا قابلِ ذکر کارروائی نہیں کرتی، اور وزیراعلیٰ، وزیراعظم یا چیف جسٹس کسی واقعے پر تب تک نوٹس نہیں لیتے جب تک وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر بہت شور مچا ہوا ہے اور اب نوٹس لیے بغیر لوگوں کے منہ بند نہیں کیے جاسکتے۔
لائبیریا کے صدر نے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست تسلیم کر لی
لائبیریا کے صدر جارج ویہ (George Weah) نے نہایت شریف آدمی واقع ہوئے ہیں، ان کی جگہ پاکستان کا کوئی سیاست دان ہوتا تو کبھی بھی انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہ کرتا اور اپنے کارکنان کے سامنے نہ صرف اپنے ساتھ ہونے والی دھاندلی کے بارے میں ایک دھواں دار تقریر کرتا بلکہ یہ اعلان بھی کرتا کہ وہ اس سلسلے میں ایک تحریک کا آغاز کررہا ہے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا جارج ویہ کا کوئی ہمدرد اگر ان کے کان میں پھونک مار کر انھیں اس طرف لگا دے تو ممکن ہے وہ پاکستان میں کسی سیاست دان سے رابطہ کر کے کچھ مشاورت کر لیں۔ ویسے اس طرح کے مشورے صرف پاکستانی سیاست دان ہی نہیں دیتے بلکہ یہاں ایسے صحافی اور دانشور بھی تھوک کے بھاو¿ مل جاتے ہیں جو اس قسم کے کاموں کے لیے اپنی خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔ جارج ویہ کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لائبیریا مغربی افریقا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے باسیوں کی تعداد لاہور کی آبادی کا تیسرا حصہ ہے لیکن منصب صدارت تو بہرطور اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے علوی صاحب کو ہی دیکھ لیں کہ ربڑ سٹیمپ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود وہ ایوانِ صدارت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ حد یہ ہے کہ اس کام کے لیے وہ اپنے آدرشوں کی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں، اسی لیے تو انھوں نے حال ہی میں یہ بیان دیا کہ اگر نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے تو وہ ان سے حلف لینے کو تیار ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بیان انھی علوی صاحب کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔