سائفر کیس، جیل ٹرائل کیخلاف حکم امتناعی میں آج تک توسیع ، قابل سماعت ہونے پر مائنڈ کلیئر کرنا چاہتے ہیں : اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت سائفر کیس میں جج تعیناتی اور جیل ٹرائل سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل میں دلائل جاری رہے۔ عدالت نے جیل ٹرائل روکنے کے حکم میں ایک روزہ توسیع کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اور سکیورٹی خدشات سے متعلق رپورٹس طلب کرلیں۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جج کی تعیناتی کا معاملہ بھی بہت اہم ہے عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا، جس پر عدالت نے کہاکہ عدالت کے اٹارنی جنرل نے جو دستاویزات رکھیں ان کے مطابق جج کی تعیناتی کا پراسیس ہائیکورٹ سے شروع ہوا، جیل ٹرائل سے متعلق اختیار عدلیہ کے پاس ہے، ایگزیکٹو نے اس پر صرف عمل کرانا ہوتا ہے، آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل پر اعتراضات سے متعلق دلائل دیں۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیدیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا لیکن دستاویزات دیکھنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی، آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اپیل ناقابلِ سماعت ہونے کے اعتراض کا جواب دیں، اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں سپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، سکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا، بظاہر ایک سپیشل رپورٹ تھی جس میں سکیورٹی خدشات کا ذکر کیا گیا، سی سی پی او نے رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجی، وزارت داخلہ نے رپورٹ وزارت قانون کو بھیج دی، وزارت قانون نے وہ نوٹیفکیشن ٹرائل کورٹ کے جج کو بھیجا۔ وکیل نے کہاکہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائی ہیں۔ عدالت نے کہاکہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ اور وزارت داخلہ کی سپیشل رپورٹ کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہاکہ اگر سکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہئے تھا؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہئے تھا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ راجہ صاحب، آپ اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جج کی جانب سے دو اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے، جج نے اس خط میں پوچھا کہ کیا ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟، جج اس خط کے ذریعے پوچھ رہا کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کے لیے تیار ہوں، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، وزارت قانون کا 29 اکتوبر کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن درست نہیں، یہ بھی کنفیوژن ہے کہ جیل ٹرائل کا مقصد کیا ہے؟، کیا ایسا سکیورٹی خدشات کے باعث ہے یا حساس کیس کے باعث پبلک کو اس سے دور رکھنا ہے، سیکشن 9 سیشن عدالتوں کے وینیوز تبدیل کرنے سے متعلق ہے جیل ٹرائل کا نہیں لکھا ہوا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 14 کے حوالے سے پراسیکیوشن کی درخواست ٹرائل کورٹ نے مسترد کی، جیل ٹرائل کا واحد مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو منظر سے غائب کرنا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پٹیشنر کو بہرحال سکیورٹی تھریٹس تو ہیں، آپ پہلے اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل مکمل کر لیں، آپ کے بعد ہم اٹارنی جنرل کے جوابی دلائل سنیں گے، عدالت کیس قابلِ سماعت ہونے پر اپنا مائنڈ کلیئر کرنا چاہتی ہے، سائفر کیس کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کیا سکیورٹی تھریٹس سے متعلق رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے رکھی گئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں، وہ رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے نہیں رکھی گئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا؟، اگر میرٹ پر دلائل سنتے ہیں تو آپ کو اس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا، جج نے سیکورٹی خدشات کے حوالے سے جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟، کیا سپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ بات عمومی طور پر پبلک ڈومین میں تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 29اکتوبر سے پہلے پری ٹرائل پروسیڈنگ چل رہی تھیں، 29اکتوبر کے نوٹیفکیشن سے ملزم کے کوئی حقوق متاثر نہیں ہوئے، ٹرائل کورٹ کے جج نے 16اگست کے اپنے حکمنامے میں بھی سکیورٹی خدشات کا ذکر کیا،ٹرائل کورٹ کے جج نے 29اگست کے نوٹیفکیشن پر انحصار کیا کیونکہ سکیورٹی خدشات ان کے علم میں تھے، 29اکتوبر کا نوٹیفکیشن ایڈمنسٹریٹو ایکشن تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ تھینک یو مسٹر اٹارنی جنرل، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ راجہ صاحب اب آپ کسی اور حوالے پر انحصار کرنا چاہیں گے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب نے جو کہا ہمارا بھی یہی موقف ہے، عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ ٹرائل کورٹ کے سامنے سکیورٹی خدشات سے متعلق کوئی مواد نہیں رکھا گیا، 12ستمبر سے بعد کے نوٹیفکیشن کی سٹینڈنگ مختلف ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ اپیل کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے 29اگست کے نوٹیفکیشن کو الگ سے پرکھا جائے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہمیں ابھی تک نہیں پتہ کہ اس کیس میں چارج کیا ہے، ہم صرف جیل میں ٹرائل اور جج کی تعیناتی کے معاملے پر قانونی نکات دیکھ رہے ہیں، وکیل نے کہاکہ میری استدعا ہو گی کہ اگر جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج کو تبدیل کیا جائے، شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو بھی کورٹ کی مداخلت کے بغیر جیل ٹرائل دیکھنے کی اجازت نہیں ملی، پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ یہ کیس کیا ہے اس میں الزامات کیا ہیں، ہم اس درخواست کی حد تک اس کیس کو سن رہے ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل میں دو سال تک لوئر جوڈیشری کیلئے فوکل پرسن رہا ہوں، ایک بڑا مسئلہ یہ ہے ماتحت عدلیہ کا سٹاف وزارت قانون کے ماتحت ہے، وزارت قانون کے ماتحت سٹاف ججز کے احکامات ماننے سے بھی انکاری ہوتا ہے، ماتحت عدلیہ کے سٹاف کو انتظامی طور پر وزارت کے بجائے ہائیکورٹ کے ماتحت ہونا چاہئے، اگر یہ انتظامی معاملہ حل ہو جائے تو انصاف کے نظام میں کافی مسائل کا حل ہو جائے گا ، وزارت کے ان نوٹیفکیشن کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس یہ اختیار ہے، بھارت کی طرح یہاں بھی یہ اختیارات ہائیکورٹ کے ذریعے کنٹرول ہوں تو یہ مسائل نہیں رہیں گے، جب میں سپیشل کورٹس کا ایڈمنسٹریٹو جج تھا تو مجھے شکایات موصول ہوتی تھیں، خصوصی عدالتوں کا عملہ وزارت قانون کے ماتحت ہوتا ہے، خصوصی عدالتوں کے ججز شکایت کرتے تھے کہ سٹاف ہماری بات ہی نہیں سنتا، وہ ججز حتی کہ ہائیکورٹ بھی سٹاف کے خلاف ڈسپلنری کارروائی نہیں کر سکتی، جسٹس حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ یہ چیزیں عدالتوں کیلئے انصاف فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں تین احتساب عدالتوں کی منظوری دی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی کے پورے دور میں وہ احتساب عدالتیں قائم نہیں ہو سکیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کابینہ نے کیا قانونی طور پر پراسس مکمل کیا؟، جو ٹرائل ہو چکا اس پر کیا اثرات ہوں گے؟، جس پر سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جو ٹرائل 12 نومبر تک ہوا وہ کالعدم ہو گا، عدالت نے کہاکہ عدالت کو ایک ایک کرکے بتائیں پراسس کیا تھا جس کو فالو کرنا ضروری تھا، سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پراسس مکمل کرنے سے پہلے کے ٹرائل کو صرف بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کیا آپ عدالت سے کارروائی کو غیر قانونی قرار دینے کا ڈیکلریشن چاہ رہے ہیں؟ جس پروکیل نے کہاکہ یس مائی لارڈ، پبلک کے بغیر ہونے والے کارروائی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 12 نومبر سے پہلے کے نوٹیفکیشنز میں کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کابینہ نے کیا قانونی طور پر پراسس مکمل کیا؟، جو ٹرائل ہو چکا اس پر کیا اثرات ہوں گے؟، وکیل نے کہاکہ جو ٹرائل 12 نومبر تک ہوا وہ کالعدم ہو گا، پراسس مکمل کرنے سے پہلے کے ٹرائل کو صرف بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ پبلک کو عدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے، اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جج کی طرف سے پبلک کو باہر رکھنے کا کوئی آرڈر موجود نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈر نہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصور کیا جائے۔ دوران سماعت عدالتی طلبی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سردار طاہر صابر عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے رجسٹرار سے کہاکہ آپ سے صرف دو سوالات پوچھنے تھے، جج ابولحسنات ذوالقرنین کی تعیناتی سے متعلق پوچھنا تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا پراسس کیا تھا؟، کیا جج نے جیل ٹرائل سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا؟، کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کیلئے پہلا خط ہائیکورٹ نے لکھا؟ یا وزارت قانون نے جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز کیا؟، عدالتی سوالات کے جواب دینے کے بعد رجسٹرار اسلام آباد ہائکورٹ کمرہ عدالت سے واپس چلے گئے۔ علاوہ ازیں نیب کی تین رکنی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں کئی گھنٹے تفتیش کی۔ نیب کی ٹیم 190 ملین پاﺅنڈ کیس میں 15 نومبر سے روزانہ کی بنیاد پر چیئرمین پی ٹی آئی سے تفتیش کر رہی ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق نیب کی تین رکنی ٹیم کی قیادت ڈائریکٹر مہر اعجاز نے کی۔ نیب کی ٹیم نے کیس کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی سے سوالات کئے۔