اسلام آباد کی جنگ
ملک بھر میں انتخابی جنگ اسلام آباد کیلئے لڑی جاتی ہے لیکن حیران کن طور پر اسلام آباد کی اپنی انتخابی جنگ ملکی سطح پر زیادہ اہمیت اختیار نہیں کرپاتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ یہاں انتخابات میں اکثر ایسی بڑی سیاسی شخصیات سامنے نہیں آتیں جن کی وجہ سے یہاں کا انتخاب ملک گیر توجہ حاصل کر پائے۔ ویسے تو ملک کے دارلحکومت سے انتخاب لڑنا اور جیتنا ایک اعزاز ہونا چاہے لیکن ہمارے یہاں کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑنے والے رہنما بھی اسلام آباد کی ایک نشست کو اپنے ان کئی حلقوں میں شامل نہیں کرتے۔ اس کی وجہ شاید یہاں کی پیچیدہ صورتحال ہے جو اسے ایک مشکل حلقہ انتخاب بنادیتی ہے۔ ہر علاقے میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے نیچے صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہوتی ہیں اور یوں دراصل اس حلقے سے ایک جماعت کے تین تین امیدوار میدان میں ہوتے ہیں اور ہر امیدوار کے ذاتی اثر و رسوخ کا اس جماعت کے دوسرے حلقے کے امیدوار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اسلام آباد میں صرف قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں اور ہر حلقے میں ایک ہی امیدوار ہوتا ہے۔ پھر اسلام آباد جہاں پہلے کبھی دیہی آبادی کی شرح زیادہ تھی اب شہری آبادی کی شرح بڑھ کر دیہی کے مقابلے میں تین چوتھائی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اب اسلام آباد کی آبادی کو سیٹلرز اور لوکلز میں تقسیم کیا جانے لگا ہے۔ یعنی باہر سے آکر یہاں آباد ہونے والے اور پرانی مقامی آبادی ،اس وقت سیٹلرز اسلام آباد کی آبادی کا پچہتر فیصد ہوچکے ہیں۔ ان میں زیادہ کا تعلق مری کشمیر ہزارہ اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں سے ہے۔ اسلام آباد کا کبھی ایک حلقہ تھا پھر دو ہوئے اور اب تین ہوچکے ہیں۔ دیہات میں تو ذات برادری کی اجتماعی حمایت کے باعث ووٹرز کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن شہر کا ووٹ کس جانب جائیگا اس کا اندازہ مشکل ہوتا ہے۔ ایک گھر کے چار پانچ ووٹ بھی مختلف جماعتوں یا امیدواروں کو جاسکتے ہیں اور سیٹلرز میں بہت سوں کے آبائی علاقوں میں خاندان برادری کی کسی جماعت کی حمایت یہاں ان کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال 2002ءکاالیکشن ہے جب پیپلز پارٹی کے بابر اعوان دیہی علاقوں میں اہم برادریوں کی حمایت حاصل کرکے اپنی کامیابی کا یقین کر بیٹھے تھے لیکن متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے جماعت اسلامی کے اس وقت کے غیر معروف امیدوار میاں اسلم نے انہیں بارہ ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست سے دو چار کردیا۔ اس میں بھی دارالحکومت کا شہری ووٹ کامیابی اور ناکامی کا فرق بنا۔ یہ ایسا ووٹر ہے جو جب تک ووٹ ڈال نہ دے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ووٹ کس جانب جائیگا تو اس غیر یقینی صورتحال میں بڑے رہنما یہاں سے الیکشن لڑنا یقینا ایک رسک ہی سمجھتے ہیں اور پھر قرعہ فال کسی مقامی کارکن کے نام نکل آتا ہے۔ گذشتہ دہائی میں اسلام آباد کی واحد نشست سے کبھی پیپلز پارٹی جیتی کبھی مسلم لیگ ن۔ سابق ڈپٹی سپیکر نواز کھوکھر، سابق چیئرمین سینیٹ نیّر بخاری بھی دادالحکومت سے ایم این اے بنے۔ 2018ءکے انتخابات میں اسلام آباد کے ایک حلقے میں جانے والے اور آنے والے دو وزرائے اعظم میں مقابلہ ہوا،عمران خان کے مقابلے میں ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو کھڑا کیا لیکن دو بڑوں کا مقابلہ بڑا مقابلہ ثابت نہ ہوا اور شاہد خاقان بھاری مارجن سے ہار گئے۔ عمران خان نے اپنے آبائی حلقے کو رہائشی حلقے پر ترجیح دیتے ہوئے یہ نشست چھوڑ دی اور ضمنی انتخاب میں قرعہ فال پھر ایک مقامی رہنما علی نواز اعوان کے نام نکلا،2002ءمیں اسلام آباد کی دو نشستیں ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی میں تقسیم ہوئیں۔ 2008ءمیں دونوں نشستیں مسلم لیگ ن کے حصے میں آئیں۔ 2013ءمیں ایک نشست تحریک انصاف نے چھین لی جب جاوید ہاشمی نے ن لیگی امیدوار کو شکست دی اور پھر نشست چھوڑ دی۔ ضمنی انتخاب میں اسد عمر یہاں سے ایم این اے بن گئے اور پھر 2018ءمیں اسلام آباد کی تمام نشستیں تحریک انصاف کو مل گئیں ،اسلام آباد سے اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کے نسبتا غیر معروف امیدوار انتخاب جیتے۔آنے والے انتخابات میں بھی اسلام آباد سے کسی بڑے سیاسی پہلوان کے میدان میں آنے کا امکان نہیں اور جو نام سامنے آرہے ہیں ان میں تقریباً تمام یہاں کے مقامی سیاسی رہنما ہی ہیں اسد عمر کی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد ان کی نشست این اے 54 پر تحریک انصاف کے مقامی دیرینہ رہنما جمشید محبوب مغل متوقع امیدوار ہیں۔جو دیہی علاقوں میں اپنے اثر ورسوخ ،پیر صاحبان آف گولڑہ شریف کے ساتھ قریبی تعلقات اور متاثرین اسلام آباد جو حلقے کے ووٹرز کا تیس فیصد ہیں ان کیلئے اپنی جدوجہد کے باعث مضبوط ترین امیدوار سمجھے جارہے ہیں، ان کے مقابلے میں ن لیگ کے سابق ایم این اے انجم عقیل اور سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کے بھائی راجا عمران اشرف ہیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ عمران خان والی نشست این اے 53 سے تحریک انصاف کے بابر اعوان بھی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے کوشاں ہیں یہاں سے پیپلز پارٹی کے سبط الحیدر بخاری بھی امیدوار ہوں گے جو پارٹی کے سینئر رہنما نیّر بخاری کے بھائی ہیں جن کا دارالحکومت کی سیاست میں بھی بڑا اثرورسوخ ہے۔تو اسلام آباد کے پیچیدہ انتخابی حلقے نے جہاں بڑی سیاسی شخصیات کو یہاں سے دور رکھا وہاں مقامی سیاسی کارکنوں کو آگے آنے کا موقع ملا اور آٹھ فروری کے انتخابات میں بھی ماضی کی طرح یہاں سے پرانے سیاسی کارکن پارلیمنٹ کے نئے چہرے بن کے سامنے آسکتے ہیں۔