”جیل ٹرائل قانونی“، آئین کی خلاف ورزی‘ آئینی ماہرین کا ملا جلا ردعمل
اسلام آباد (صلاح الدین خان) اسلام آباد ہائیکورٹ کے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دینے کے فیصلے کے حوالے سے آئینی و قانونی ماہرین نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ نے کہا کہ فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے، ماضی میں بھی جیل ٹرائل کی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ ہیلی کاپٹر کیس میں میاں نواز شریف کا اٹک جیل میں ٹرائل ہوا، چوہدری ظہور الہی کا جیل ٹرائل، جاتلہ کے تین قتل کیس، سلیمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کا جیل ٹرائل ہوا تھا۔ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیس کا جائزہ لے کر جیل ٹرائل کرنے کا حکم دے سکتی ہے ۔ جیل ٹرائل میںکیس کے دوران عدالت کی پیشگی اجازت سے متعلقہ افراد جا سکتے ہیں۔ جیل ٹرائل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جبکہ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جیل ٹرائل آرٹیکل 9 اور 10 کی خلاف ورزی ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سائفر کا کیس پہلے بنا جبکہ قانون بعد میں بنا۔ الیکشن سے پہلے ایسے مقدمات سیاسی ایشو لگتے ہیں۔ بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کیس کو ختم بھی کرنا چاہتی ہے اور چلانا بھی چاہتی ہے۔ اگر سائفر کیس کا کوئی فیصلہ آیا تو وہ عدالت میں چیلنج ہو گا۔ اس حوالے سے قانونی ماہرین نے نوائے وقت سے گفتگو کی۔ سینئر وکیل سپریم کورٹ و سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا نے کہا کہ جیل ٹرائل کرنے کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔ امکان ہے کہ ہائی کو رٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چینلج ہو گا۔ سینئر وکیل سپریم کورٹ حشمت حبیب نے کہا کہ دشتگردی شرپسندی کے خدشے کے باعث عدالت جیل ٹرائل کا حکم دے سکتی ہے۔ ایڈووکیٹ قمر چوہدری نے کہا کہ ٹرائل ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔ جیل ٹرائل سے کیس کی شفافیت متاثر ہوتی ہے۔ اکرام چوہدری نے کہا ہے کہ یہ سیاسی کیس لگتا ہے کیونکہ بادی النظر میں قانون بعد میں پا س ہوا جبکہ ملزم پر سائفر کیس پہلے بنا کر ٹرائل شروع کر دیا گیا۔