جیل ٹرائل غیرقانونی، جج کی تعیناتی درست
اسلام آباد (وقار عباسی/ نامہ نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرلیا۔ ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اگست کے جیل ٹرائل کورٹ کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ 15 نومبر کے وزارت قانون کے جیل ٹرائل نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو گا۔ قبل ازیں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایف آئی اے پراسیکیوشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جیل ٹرائل کے لیے جج کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل کے لیے جج کی مرضی لازمی ہے، متعلقہ جج ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آفس کے ذریعے متعلقہ وزارت کو آگاہ کرتے ہیں۔ متعلقہ جج کو اپنا مائنڈ کلیئر کرکے وجوہات بتانی ہوتی ہیں، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل ان تمام پروسیس سے گزرتا ہے۔ انہوں نے دلائل دیے کہ جیل ٹرائل کے لیے پہلا فیصلہ ٹرائل کورٹ کے جج کا ہونا چاہیے، ٹرائل کورٹ کے جج کا خط فیصلہ یا حکمنامہ نہیں ہے، جج فیصلے کے ذریعے اپنا مائنڈ استعمال کرتا ہے، جیل ٹرائل کے لیے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے۔ جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، مزید کہا کہ وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ دیگر وزرائے اعظم کے خلاف اوپن ٹرائل اور میرے مو¿کل کے خلاف جیل ٹرائل کیوں ہو رہا ہے؟۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 29 اگست کے دستاویزات میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیوں جیل ٹرائل کیا جارہا ہے؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسیس کا آغاز ٹرائل جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیل ٹرائل کے لیے منظوری وفاقی کابینہ نے دینا ہوتی ہے مگر اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا اب تک کوئی جوڈیشل آرڈر پاس ہوا؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ رولز کے مطابق آج تک کوئی جوڈیشل آرڈر نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ 16 اگست کو ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، اس کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے،پراسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مان بھی لیا جائے کہ 12 نومبر سے کابینہ کی منظوری کے لیے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوجائے گی۔ سلمان اکرم راجا نے 8 نومبر کا جج ابوالحسنات ذوالقرنین کا خط پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ نومبر کے خط کو دیکھتے ہوئے پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے، جج نے خط میں کہا کہ کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے جبکہ 12 نومبر کو کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی، کابینہ کی منظوری کا خط اس وقت لکھا گیا جب انٹراکورٹ اپیل زیر سماعت تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 12 نومبر کو کابینہ ڈویژن نے سمری تیار کی اور 13 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جج نے خط میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ 8 نومبر کے خط میں جج صاحب نے ماضی کی کارروائی کا ذکر نہیں کیا، جو چیز مانگی ہی نہیں گئی، کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے؟۔ جسٹس میان گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ آرٹیکل 352 کے تحت ماضی کی کارروائی پر 13 نومبر کے نوٹیفکیشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے، کابینہ منظوری کے لیے جوڈیشل آرڈر بنیادی چیز ہے، جو موجود ہی نہیں۔ بعدازاں عدالت نے اپنے تین صفحات میں قرار دیا کہ 13 نومبر سے قبل جاری کئے جانے والے پانچ نوٹیفکیشن قانونی پراسس کے مطابق نہیں تھے جنہیں عدالت نے خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔