• news

کالے کوے اور تلخ حقیقتیں

دل کے کچھ دکھڑے عرصہ دراز کے بعد ایک دفعہ پھر ان الفاظ کے ذریعے آپکی ساعتوں کی نذر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جس کیلیئے ایڈیٹر صاحب کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں کہ ادارے کے دروازے پر جب بھی دستک دیتا ہوں وہ میری تنگ دامنی کی طرف نہیں جاتے شفقت اور وسعت قلب سے کام لیتے ہوئے ادارے کا دروازہ فوراَ کھول دیتے ہیں۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، کیا ہم بھی کچھ بدلے یا آج بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں آج سے پچھہتر سال پہلے سفر شروع کیا تھا۔ زیادہ دور نہیں جاتے کیونکہ ہماری قوم کی یادداشت کی صحت بارے کافی ابہام پایا جاتا ہے اس لیئے بند کواڑ 2013ء کے اس دن سے کھولتے ہیں جب نون لیگ کی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ اشفاق پرویز کیانی کی کمان کا دوسرا دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہوتا ہے۔ غلام گردشوں کی ریشہ دوانیوں سے گزرتے ہوئے اپنے پہلے تین سالہ دور کی نیک نامی کے باوجود انکا دوسرا دور جو خاصا متنازعہ بن چکا ہوتا ہے، تیسرے دور کیلیئے انکی کمان کی خواہش کے راستے میں وہ بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے حالانکہ 2013ء کے الیکشن میں نون لیگ کے اقتدار کے حصول کی کوششوں میں جنرل کیانی اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال بھی چکے ہوتے ہیں لیکن نواز شریف کی نظر الفت راحیل شریف پر ہی ٹھہرتی ہے، وہ راحیل شریف کی جاندار شخصیت کا بھرم رکھتے رکھتے ہوئے انہیں آرمی چیف اناو¿نس کرتے ہیں جسکے ساتھ ہی حسبِ روایت سپرسیڈ ہونے والے دو جنرل تو خود ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف کچھ جونئیر ساتھیوں کو یہ تقرری ہضم نہیں ہوتی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں ہسٹری ایک دفعہ پھر اپنے آپکو اس وقت دہراتی ہے جب 2014ءمیں مشہور زمانہ ایک انجینرڈ دھرنے کا انتظام کیا جاتا ہے جسکی پلاننگ لندن میں ہوتی ہے اس پلاننگ میں جہاں پاکستان سے سیاست کے ایک نوخیز چوزے جسکی پیدائش تو جنرل مشرف کی آمد سے پہلے ہو چکی ہوتی ہے لیکن افزائش 2011ء کے ایک جلسے سے شروع ہوتی ہے۔ اس سمیت گجرات کے سیاسی خانوادے اور ایک حاضر سروس کی شرکت ہوتی ہے وہیں پر کینڈا سے ایک مذہبی مبلغ بھی اس واردات میں شامل ہونے کیلیئے تشریف لاتا ہے۔ وعدے وعید ہوتے ہیں اور پھر دھرنا شروع ہوتا ہے۔ بظاہر اسکے دو بڑے کردار ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی جماعت کا سربراہ سامنے ہوتے ہیں لیکن اسکے اصل کردار اس وقت سامنے آتے ہیں جب مبینہ طود پر آئی بی کا سربراہ ٹیپ کی صورت میں کچھ ثبوت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو دیتا ہے جو آرمی چیف راحیل شریف کے سامنے رکھے جاتے ہیں کہ کیا دھرنے کا مقصد صرف منتخب حکومت کو چلتا کرنا ہے یا اس انجینرڈ ڈاکومنٹری کے ذریعے آرمی چیف کی قیادت کو بھی نشانہ بنانا مقصود ہے۔ پیش کردہ ثبوت اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ آرمی چیف بھی حیران ہو جاتا ہے کہ اسکی کمان کے نیچے ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ حقائق سامنے آنے پر آرمی چیف پھر وہی کرتا ہے جو چین آف کمانڈ ایک کمانڈر سے تقاضا کرتی ہے لیکن میں یہاں یہ ضرور کہونگا کہ راحیل شریف نے ہتھ ہولا رکھا اور وہ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیئے تھا۔
قارئین اپکے ذہن میں یہ سوال جنم لے رہا ہو گا کہ 2013ء کے اس ایپی سوڈ کا اس بات سے کیا تعلق کہ دوسری قوموں کی طرح ہم بھی اپنے میں کوئی تبدیلی لائے ہیں یا ابھی وہیں کھڑے ہیں۔ اس ایپی سوڈ کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ توجہ دلانا تھا کہ آج 2023ء ہے لیکن اس دس سال کے عرصے میں ہمارے ملک میں آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ 
سوچنے کا مقام اب یہ بنتا ہے کہ کیا ان مہمات سے ہم نے کوئی سبق سیکھا یا ماضی کی طرح ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہینگے۔ یاد رہے قومیں صرف وہی ترقی کرتی ہیں جو ارتقاءکے عمل سے گزرتی رہیں۔ کمان اور انتظام میں معافی اور رحم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی 2014ء میں اصل پانچ کرداروں کا اگر بندوبست ہو جاتا تو نو مئی 2023ء کو کبھی یہ سازش دھرائی نہ جاتی۔ سالار اعلیٰ کی انتظامی اور تنظیمی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں لیکن بسا اوقات تھوڑی سی دیر جہاں کچھ تفریق یا مصلحتوں کا شائبہ چھوڑتی ہے وہاں اکثر بہت بڑے خلاء بھی چھوڑ جاتی ہے۔بلاشبہ آپ نے نو مئی کے چند ایک کرداروں کا محاسبہ کیا لیکن ابھی پشاور سے کوئٹہ تک بہت کچھ باقی ہے۔ اپ نے ڈالر کے بڑھتے ریٹ اور سمگلنگ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا لیکن سزا ابھی تک کسی ایک کو نہیں ملی۔ سمگلنگ کے سلسلے میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آرز کی صورت میں ایسے ایسے ثبوت سامنے آئے کہ کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن کیا ہوا صرف کسٹم کے ایک ممبر آپریشن جو کہ پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں کافی عبور رکھتا ہے، دوسروں کو بچانے کیلیئے اسے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا اور دیورانی جٹھانی کی حکومت قائم کر دی گئی۔سنا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ جو انکوائری کراچی اور کوئٹہ میں چل رہی تھی وہ بھی بند ہو چکی۔ یہ تلخ حقیقت ہے لہذا عرض صرف اتنی ہے قوم کو کسی اور نو مئی اور ملک کو سمگلنگ سے بچانا ہے تو پھر کچھ “کوے “ الٹا لٹکانا پڑینگے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر-دی نیشن