ادبی ادارے اور بے چاری گورننس
اگرچہ میں نے سن بھی رکھا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے عہد کے درباری شاعروں نے غالب کا ناطقہ بند کرنے میں کو?ی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اسی طرح اقبال اور منٹو پہ بھی فتوے لگائے گئے اور فیض احمد فیض پر طنز و تشنیع کی بوچھاڑ جاری رکھی گئی۔ لیکن جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ رام ریاض ، عدیم ہاشمی ، صابر ظفر ، سلیم کوثر اور منیر نیازی کے خلاف مصنوعی شعرا یا کمتر درجے کے تخلیقی شعرا کی طرف سے مسلسل سازشیں اور دشمنی تھی۔ ریڈیو ، ٹی وی ، اخبار ، مشاعرے ، اعزازات ہر جگہ سے ان کا نام کٹوایا جاتا۔ ان کے رزق کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ منیر نیازی کے خلاف ایسا زہریلا پراپیگنڈا کیا گیا کہ جس سے ادب سے وابستہ لوگوں کے دلوں پر چرکے لگے۔ مسلسل کہا گیا کہ منیر نیازی مردم بیزار ہے ، منیر نیازی بداخلاق ہے ، منیر نیازی مہمان نواز نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اور یہ وہ لوگ پھیلاتے تھے جن کی اخلاقیات کے جنازوں کی آج بھی مثال دی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ سرکار دربار تک رسائی رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج کل سینئر بیوروکریٹس ان کا ہتھیار ہیں۔ یہ ایک مفاد پرست ٹولا ہے اور معمولی درجہ کے شاعر ادیب بلکہ مصنوعی تخلیق کار ہیں جو بلا کی مشاقی سے خود کو معتبر شاعر ادیب کے طور پر پیش کرکے ادب اور ادیب کی عزت کرنے والے بیوروکریٹس خصوصاً صوبائی اور وفاقی ہر دو سطح کے سیکریٹریز اطلاعات و ثقافت ، ایجوکیشن اور کیبنٹ ڈویژن کی اعزازات برانچ کی کرسیوں پر بیٹھے افسران سے ہمیشہ اور مسلسل مضبوط تعلق بنا کے رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے اور اپنے گروپ کے وفاداروں کے لیے مفادات حاصل کرتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ پچھلے تیس سال سے صرف چند شاعروں اور ادیبوں کو ہی نوازے جانے کا سلسلہ صرف عوام اور ملک بھر کے جینوئن ادیبوں کو ہی کیوں نظر آتا ہے؟ ملک کی گورننس چلانے والوں کو کیوں نہیں نظر آتا؟ تین چار ادیب اپنے بیس تیس سالہ پرانے کام پر ہی ہرسال نیا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں۔ کانفرنسیں ، مشاعرے ، سرکاری اداروں میں تحقیق کا کام اور کتابوں کی اشاعت پی ٹی وی کے پروگرامز یہ سب ان کے اشاروں پر ہی کیوں ہوتے ہیں اور یہ ہمارے اعلیٰ دماغ لائق فائق بیوروکریٹس کو نظر کیوں نہیں آتا؟ یہ ایسی کرپشن ہے جس نے براہ راست معاشرے کے تہذیبی ارتقاءاور تمدنی تسلسل پر خوفناک حملہ ہے۔ جب چند ایسے شاعر ادیب ہی عظیم بنا کے پیش کیے جاتے رہیں گے جن کا کام اداروں پر قبضہ کرنا ، بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھنا یا اداروں کے بورڈز کی ممبرشپ لے کے ان اداروں پر اثر انداز ہونا ہے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ ادب ان کے لیے سوائے مفادات حاصل کرنے کے ذریعے کے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ المیہ یہ ہے کہ ہر طرف ایسی نفسانفسی ہے کہ نہ کوئی سوچنے والا ہے نہ احساس کرنے والا کہ اس ادبی کرپشن کے معاشرے کی اجتماعی تہذیبی نفسیات پر کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ جس طرح کسی ملک کی معیشت کمزور ہوجائے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے اسی طرح اگر کسی ملک کا ادب کمزور ہوجائے تو قوم کمزور ہوجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ دونوں سطح پر یہی ہو رہا ہے۔
شہر شہر ادبی فیسٹیول ہو رہے ہیں جس میں مصنوعی اور کمتر درجے کے شاعر اور ادیبوں کے علاوہ کامیڈین ، صحافی ، چند مخصوص پروفیسر اور ایک ادبی ٹولا بس ٹائیں ٹائیں فش۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک کی باگ ڈور چلانے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ادب کے نام پر ہونے والا یہ شغل میلہ ملک بھر کے مضافات سے تعلق رکھنے والے شعراءکو بالخصوص مجروح اور مایوس کر رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ فیسٹیولز ہی وہ ادب کش ٹولے ہیں جسے کارپوریٹ کلاس اپلائی کرکے حقیقی شاعر اور ادیبوں کو دیوار سے لگا کے مصنوعی ادیبوں کو معتبر بنا کر عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ سپانسرز کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں مشہور لوگ ہوں اور مشہور لوگ وہی ہوتے ہیں جن کی فیس ویلیو پہلے سے ہی ان کے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنا چکے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف آپ اگر کبھی چھوٹی موٹی تحقیق کریں تو یہ ڈیٹا آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں کہ ادبی اداروں پر شاید ہی کبھی کوئی جینوئن ادیب ایک آدھ بار بطور سربراہ مقرر کیا گیا ہوگا ورنہ زیادہ تر یا تو بیوروکریٹ قابض ہیں یا کمزور اور مفاد پرست ادیب جن کا مقصد ادبی اداروں کو ان کے منشور کے مطابق چلانا نہیں ہوتا بالکل خود کو پروموٹ کرکے فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے۔
لگتا ہے جیسے متعلقہ وزارت میں بیٹھے ذمہ داران یہ سارا کچھ جان بوجھ کر ہونے دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن مشکوک ہیں ، آئین کی کسی کو پروا نہیں ، انصاف اور قانون پتا نہیں کس کے رحم و کرم پر ہیں لیکن سموگ کے دنوں میں پورے شہر کو پوری ذمہ داری اور تندہی سے اکھاڑا گیا ہے۔ لاہور میں پلوں اور سڑکوں کا کام جس پھرتی سے کیا گیا ہے اس پر داد دینے کو دل کرتا ہے۔ لگتا ہے ادبی اداروں کو ادھیڑنے کا کام بھی شاید اتنا ہی ضروری سمجھ لیا گیا ہے جتنا لاہور میں دھول اڑانا۔ سڑکیں اور پل تو جب بن جاتے ہیں عوام پچھلی تکلیف کو بھول کر حکومت کے مشکور ہوتے ہیں اور جب جب سہولت سے گزرتے ہیں یاد رکھتے ہیں کہ کس حکمران نے یہ نیک کام کیا تھا لیکن ادب اور ادبی اداروں کی اکھاڑ پچھاڑ سے جو سماجی تباہی آ رہی ہے اس کے اثرات انسانوں کے اجتماعی مزاج اور ذہنوں پر پڑ رہے ہیں۔ جس معاشرے میں ادب و ثقافت مصنوعی اور کمرشل ہوجائے وہاں لوگوں کے دل سخت اور بے حس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کے تقدس کی اہمیت جاتی رہتی ہے۔ رواداری اور باہمی احساس کمزور پڑ جاتا ہے۔ انسانی معاشرے صرف سڑکوں اور پلوں سے نہیں بلکہ خوبصورت خیالات اور جمالیاتی احساس سے سنورا کرتے ہیں۔
تیس چالیس سال پہلے بیورو کریسی ایسی نہیں تھی۔ صاحبان بصیرت اور اعلیٰ دماغ ، دیانتدار اور نہایت وضعدار لوگ بیوروکریٹس ہوا کرتے تھے۔ پورے احساس ِ ذمہ داری کے ساتھ نوکری کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اختیارات ملک اور قوم کی امانت تھے۔ آج خود یہی بیوروکریٹ ملک کے حقیقی لوگوں کا حق مار کے جعلی لوگوں کو اعزازات دے رہے ہیں۔ گویاایک طرف تو قومی اعزازات کو بے توقیر کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ملک و قوم کے لیے مخلصانہ حسن کارکردگی دکھانے والوں کو مایوس کیا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ سب میری نظر کا دھوکہ ہو اور یہ عین حق داروں کو حق دیا جا رہاہو لیکن خلق خدا کی طرف سے آنے والے ردعمل کو کیا کہہ کر نظر انداز کیا جائے گا یا چلیے کبوتر بھی تو آنکھیں بند کر کے یہی سمجھتا ہے کہ بلی نہیں ہے۔ کوئی غیر جانبدار انکوائری ہی بٹھا دی جائے کہ کس کو کون سا ایوارڈ کس بنیاد پر اور کس چینل کے ذریعے ملا ہے اور ادبی اداروں پر شب خون مارنے کے پیچھے کون کون سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں اور کب سے ہیں؟ المیہ دراصل ہے ہی یہی کہ نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ بتانے والا۔ لگتا ہے ہمیں بھی رو دھو کے چپ ہی ہونا پڑے گا۔
٭....٭....٭