سوشل میڈیاکے چیلنجز
آج دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ثمرات سے مستفید ہورہی ہے جن کی بنا پر زندگی کے ہر شعبے میں جدت اور ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں یہ ترقی کسی انقلاب سے کم نہیں کیونکہ اس سے انسانی زندگی بدل کے رہ گئی ہے، اب کسی بھی خبریا واقعے کو چھپانا ممکن ہی نہیں رہا، دنیا ایک ہتھیلی کی مانند ہوگئی ہے،صرف ایک کلک سے چند سیکنڈ میںمعلومات آپ تک پہنچ سکتی ہیں، دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والا واقع ہرکسی تک پہنچ سکتاہے اور چاہتے ہوئے بھی اسے چھپایا نہیں جاسکتا۔تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں ہر روز نئی جدت دیکھنے کو مل رہی ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب نئی ایجادات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوںمیں ترقی کرتے نظرآتے ہیں، جبکہ کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح ہرنئی ایجاد کا ایک منفی پہلو بھی ہوتاہے جسے چند لوگ اپنے بالخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی اس ترقی کا بھی منفی استعمال نظرآ رہاہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا ہوتانظرآرہاہے اس بگاڑ کا تدارک بہت ضروری ہے، قبل اس کے کہ معاشرے کی ہیئت ہی تبدیل ہوجائے۔ سوشل میڈیا کا غلط اورمنفی استعمال آج سب سے بڑا مسئلہ ہے بلکہ بعض حوالوں سے یہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک چیلنج کی شکل اختیارکرچکاہے جسے روکنا بہت ضروری ہے۔
سوشل میڈیا پر انحصار اس حد تک بڑھ چکاہے کہ اس کے بغیر اب زندگی نامکمل نظرآتی ہے۔ لوگوں تک آسان رسائی کے لیے ٹوئٹر، انسٹاگرام،واٹس ایپ سمیت بہت سے طریقے استعمال کیے جارہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ تعلیم اورترقی کا معیار بہت بہتر اور ایڈوانس ہے اس وجہ سے وہاں سوشل میڈیا کا استعمال شاید اتنا بڑا چیلنج نہیں جتنا پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ممالک میں ہے، آج پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس موبائل فون ہیں، بہت سے حوالوں کے اعتبار سے یہ استعمال کسی بھی طرح کی حدود وقیود سے بالاترہے اس امر کی بنا پر ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر آج بہت سے سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں، ہمارے موبائل فونز کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کے منفی مضمرات سے آگاہ نہیں ، آج جرائم پیشہ لوگ بھی اسی سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے نظرآتے ہیں، لوگوں کو ورغلانے کے مختلف طریقے ایجاد ہوچکے ہیں اور لوگ اس طرح کے بہکاوے میں آبھی رہے ہیں، یہ ساری صورتحال قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بذات خود ریاست کے لیے بھی ایک چیلنج کی صورت اختیارکرچکی ہے۔ آج کی دنیا میں ذہن سازی کے لیے بھی سب سے زیادہ استعمال اسی سوشل میڈیا کا ہورہاہے، ہر روز نئے نئے سکینڈل دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کا نشانہ معاشرے کے ایسے طبقات بھی بنتے ہیں جن کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
آج پاکستان بہت سے داخلی اور خارجی مسائل کا شکار ہے جن میں بہت سے معاملات کا تعلق ہماری قومی سلامتی سے بھی ہے ،دشمن کی ہروقت یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کو بدنام کیاجائے تاکہ بین الاقوامی طور پر بھی ہمارا تشخص متاثر ہو، اور اندرونی طور پر عوام کو ریاست کے بارے میں گمراہ کیاجائے، بدقسمتی ہے دشمنوں کے اس کام کو آسان بنانے میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی براہ راست ہاتھ ہے، جو ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر ایسی من گھڑت اور جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس ساری مہم میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیاجارہاہے، ایک مخصوص سیاسی سوچ اور جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس مہم میں پیش پیش ہیں، وہ صرف اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور لوگوں کی ذہن سازی کے لیے ایسا کررہے ہیں اور چونکہ ان کا ہدف بھی ریاست اور اہم ریاستی ادارے ہیں جن میں مسلح افواج سرفہرست ہے۔ اس لیے ہمارے دشمنوں کا کام اور بھی آسان ہوگیاہے، اب دشمن کو خود سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی سوشل میڈیا کا جھوٹ اور پراپیگنڈے پرمبنی خبروں کو بنیاد بناکر وہ بھی اپنی بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، ہر روز ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک جھوٹ پرمبنی خبر بنائی جاتی ہے اورپھر سارا دن اس کی تشہیر کی جاتی ہے لوگ بھی ان خبروں کو بغیرتحقیق کے آگے پھیلاتے رہتے ہیںکیونکہ یہ اس کی مجموعی سوچ سے مطابقت رکھتی ہیں، ایسی مہم چلاتے ہوئے یہ عناصر براہ راست دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں کیونکہ اس سے ملک اور ادارے بدنام ہورہے ہیں جبکہ عوام کے ذہنوںمیں بھی ابہام اور غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں، یہ پروپیگنڈا براہ راست ملکی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔